صحيح البخاري
كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ -- کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں
8. بَابُ دُعَاءِ الإِمَامِ عَلَى مَنْ نَكَثَ عَهْدًا:
باب: وعدہ توڑنے والوں کے حق میں امام کی بددعا۔
حدیث نمبر: 3170
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْقُنُوتِ؟ قَالَ: قَبْلَ الرُّكُوعِ، فَقُلْتُ: إِنَّ فُلَانًا يَزْعُمُ أَنَّكَ، قُلْتَ: بَعْدَ الرُّكُوعِ، فَقَالَ: كَذَبَ ثُمّ حَدَّثَنَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَنَتَ شَهْرًا بَعْدَ الرُّكُوعِ يَدْعُو عَلَى أَحْيَاءٍ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ، قَالَ" بَعَثَ أَرْبَعِينَ أَوْ سَبْعِينَ يَشُكُّ فِيهِ مِنَ الْقُرَّاءِ إِلَى أُنَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ فَعَرَضَ لَهُمْ هَؤُلَاءِ فَقَتَلُوهُمْ وَكَانَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ فَمَا رَأَيْتُهُ وَجَدَ عَلَى أَحَدٍ مَا وَجَدَ عَلَيْهِمْ".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت بن یزید نے بیان کیا، ہم سے عاصم احول نے، کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے دعا قنوت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ رکوع سے پہلے ہونی چاہئے، میں نے عرض کیا کہ فلاں صاحب (محمد بن سیرین) تو کہتے ہیں کہ آپ نے کہا تھا کہ رکوع کے بعد ہوتی ہے، انس رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا تھا کہ انہوں نے غلط کہا ہے۔ پھر انہوں نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک رکوع کے بعد دعا قنوت کی تھی۔ اور آپ نے اس میں بنو سلیم کے قبیلوں کے حق میں بددعا کی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس یا ستر قرآن کے عالم صحابہ کی ایک جماعت، راوی کو شک تھا، مشرکین کے پاس بھیجی تھی، لیکن بنو سلیم کے لوگ (جن کا سردار عامر بن طفیل تھا) ان کے آڑے آئے اور ان کو مار ڈالا۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا معاہدہ تھا۔ (لیکن انہوں نے دغا دی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی معاملہ پر اتنا رنجیدہ اور غمگین نہیں دیکھا جتنا ان صحابہ کی شہادت پر آپ رنجیدہ تھے۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1071  
´رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھی، آپ اس میں رعل، ذکوان اور عصیہ نامی قبائل ۱؎ پر جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تھی، بد دعا کرتے رہے۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1071]
1071۔ اردو حاشیہ:
➊ ان کے ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دھوکا کر کے کچھ مبلغین حاصل کیے جو سب قرآن کے قاری تھے اور انہیں اپنے علاقے میں لے جاکر ان قبائل سے قتل کرا دیا۔ ایک دوسرے حادثے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دس صحابہ شہید کر دیے گئے۔ یہ واقعات جنگ احد کے بعد قریب ہی پیش آئے تھے۔ جنگ احد میں بھی مسلمانوں کا خاصا نقصان ہوا تھا۔ ان مسلسل جانی نقصانات سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم غمگین ہوئے تو آپ نے قنوت نازلہ کا اہتمام فرمایا؎ (نازلہ عربی میں مصیبت کو کہتے ہیں اور قنوت وہ دعا جو کھڑے ہو کر کی جائے۔) آپ مختلف نمازوں میں آخری رکعت میں رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کر بلند آواز سے دعا مانگتے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم بھی شریک دعا ہوتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض مشرکین مکہ، دھوکا دینے والے قبائل اور قاتلین قراء کے نام لے کر بددعا فرماتے تھے۔ ایک مہینے تک یہ عمل جاری رہا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ مخصوص حالات میں کسی شخص یا قبیلے کا نام لے کر بددعا کرنا جائز ہے، تاہم اس سے پہلے جنگ احد کے بعد آپ نے قنوت نازلہ کا اہتمام فرمایا جس میں آپ کا سرزخمی ہو گیا تھا اور ایک رباعی دانت ٹوٹ گیا تھا، اس موقع پر آپ کو ان کی بابت قنوت سے روک دیا گیا۔ یہ دو الگ الگ واقعات اور الگ الگ قنوت ہیں۔ مختلف قبائل کا نام لے کر جو قنوت کی، وہ آیت: «لَيْسَ لَكَ مِنَ الأمْرِ شَيْءٌ» [آل عمران 128: 3] کے نزول کے بعد کا واقعہ ہے، اس لیے حسب ضرورت کسی شخص یا قبیلے کا نام لے کر قنوت نازلہ کرناجائز ہے۔ لیکن کبھی کبھار، نہ کہ ہمیشہ۔ امام حنیفہ رحمہ اللہ کسی معین شخص یا قبیلے کا نام لے کر اس کے حق میں یا اس کے خلاف دعا کرنے سے منع کرتے ہیں۔ یہ حدیث ان کے موقف کی تائید نہیں کرتی۔ امام شافعی رحمہ اللہ صبح کی نماز میں ہمیشہ قنوت کے قائل ہیں مگر یہ صحابہ میں مختلف فیہ مسئلہ رہا ہے، لہٰذا ایک آدھی روایت کی بنا پر اس پر دوام مناسب نہیں ہے، جب کہ اس کے خلاف بھی روایات موجود ہیں۔ جمہور اہل علم دوام کو غلط سمجھتے ہیں۔ صرف کسی اہم موقع پر جب کوئی خصوصی مصیبت نازل ہو، رکوع کے بعد فجر یا کسی اور نماز میں قنوت کرلی جائے۔ دلائل کو جمع کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ جب دلائل متعارض معلوم ہوں تو درمیانی راہ نکالنی چاہیے نہ کہ کسی ایک جانب کو لازم کر لیا جائے۔ باقی رہی قنوت وتر تو اس کا ذکر وتر کی بحث میں مناسب ہے۔ ان شاء اللہ وہیں آئے گا۔
➋ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نماز میں غیر قرآن الفاظ کے ساتھ دعا کرنا ممنوع قرار دیتے ہیں۔ حدیث ان کے موقف کی تردید کرتی ہے۔
➌ کفار پر لعنت بھیجنا اور ان کے خلاف بددعا کرنا جائز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1071   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1072  
´نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
ابن سیرین سے روایت ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر میں قنوت پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! (پڑھی ہے) پھر ان سے پوچھا گیا، رکوع سے پہلے یا رکوع کے بعد؟ رکوع کے بعد ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1072]
1072۔ اردو حاشیہ: یہی وہ قنوت ہے جسے امام شافعی رحمہ اللہ نے صبح کی قنوت سمجھا ہے جب کہ جمہور اہل علم اسے عارضی قنوت نازلہ سمجھتے ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1072   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1080  
´قنوت (قنوت نازلہ) چھوڑ دینے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک دعائے قنوت پڑھی، آپ عرب کے ایک قبیلے پر بد دعا کر رہے تھے، پھر آپ نے اسے ترک کر دیا۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1080]
1080۔ اردو حاشیہ: ایک نہیں بلکہ کئی قبیلوں کے خلاف بددعا کرتے تھے۔ (دیکھیے، روایت: 1078)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1080   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1184  
´رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
محمد (محمد بن سیرین) کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دعائے قنوت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1184]
اردو حاشہ:
فائدہ:
یہاں حدیث میں اختصار ہے۔
اصل میں یہ وہی حدیث ہے جس میں یہ درج ہے کہ نبی کریمﷺ نے ایک مہینہ مسلسل پانچوں فرض نمازوں میں رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1184   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 241  
´نماز کی صفت کا بیان`
«. . . وعن أنس رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قنت شهرا بعد الركوع يدعو على أحياء من العرب ثم تركه. متفق عليه. ولأحمد والدارقطني نحوه من وجه آخر وزاد: "وأما في الصبح فلم يزل يقنت حتى فارق الدنيا". . . .»
. . . سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا مہینہ رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھی، پھر اسے چھوڑ دیا۔ (بخاری و مسلم) احمد اور دارقطنی وغیرہ نے ایک اور طریق سے اسے روایت کیا ہے، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ صبح کی نماز میں دعائے قنوت تا دم زیست ہمیشہ پڑھتے رہے۔ . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 241]

لغوی تشریح:
«قَنَتَ» قنوت سے ماخوذ ہے۔ اس کے متعدد معانی ہیں۔ یہاں مراد ہے قیام کی حالت میں دوران نماز میں دعا کرنا۔ یہ دعا بعد از رکوع ہے۔
«عَليٰ أَحْيَاءٍ» «عَليٰ»، اس جگہ نقصان و ضرر کے لیے استعمال ہوا ہے، یعنی جب کسی کے لیے بدعا کی جائے تو اس موقع پر «دَعَا عَلَيْهِ» بولا جاتا ہے، یعنی فلاں نے فلاں کے لیے بدعا کی۔ اور «أَحْيَاءٍ» جمع ہے «حَيّ» کی جس کے معنی قبیلہ کے ہیں۔ اور یہ قبائل (عہد شکن) رعل، ذکوان، عصیہ اور بنولحان تھے۔ ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا کی، اس لیے کہ آپ نے ان کی درخواست پر پروردگار کے احکام پہنچانے اور تبلیغ اسلام کے لیے ان قبائل نجد کی طرف اپنے ستر قاری اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کو بھیجا تھا۔ جب یہ قافلہ مبلغین، بئر معونہ پر پہنچا۔۔۔ اور یہ کنواں یا چشمہ بنی عامر کے علاقہ اور حرہ بنی سلیم کے درمیان واقع تھا بلکہ یہ حرہ بنی سلیم کے زیادہ قریب تھا۔۔۔ تو بنوسلیم کے قبائل کے جھرمٹ میں سے عامر بن طفیل ان کی طرف نکلا۔۔۔ اور یہ قبائل رعل، ذکوان اور عصیہ تھے۔ (جہاں یہ قراء حضرات ٹھہرے ہوئے تھے) وہیں ان قبائل کے لوگوں نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔ ان قاریوں نے بھی اپنی تلواریں نکال لیں اور مد مقابل دشمنوں سے خوب لڑے حتی کہ سب کے سب جام شہادت نوش کر گئے۔ صرف سیدنا کعب بن زید رضی اللہ عنہ زندہ بچے۔ کفار نے انہیں اس حالت میں چھوڑا تھا کہ زندگی کی رمق ابھی ان کے اندر باقی تھی مگر انہوں نے اپنے گمان کے مطابق انہیں مار دیا تھا۔ اللہ نے انہیں زندگی عطا کی اور بالآخر غزوہ خندق میں جام شہادت نوش فرمایا۔ یہ المناک اور دردناک واقعہ غزوہ احد کے چار ماہ بعد 4 ہجری ماہ صفر میں پیش آیا۔ بنولحیان کے حق میں بددعا کی وجہ یہ تھی کہ عضل و قارہ کے قبائل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسے (عالم) آدمیوں کا مطالبہ کیا تھا جو انہیں اسلام کی دعوت دے سکیں اور انہیں احکام شریعت کی تعلیم دے سکیں، چنانچہ آپ نے دس عظیم حضرات ان کی جانب بھیجے۔ جب یہ حضرات رجیع تک پہنچے۔۔۔۔۔۔ یہ جگہ رابغ اور جدہ کے درمیان واقع ہے۔۔۔۔ تو ان قبائل کے لوگوں نے ان دس آدمیوں کے ساتھ دھوکا کیا اور بنولحیان کو بھی اشارہ کیا (شہہ دی۔) یہ ہذیل کے قبائل میں سے ایک قبیلہ تھا۔ یہ سب لوگ ان کی طرف نکل کھڑے ہوئے اور ان کو گھیرے میں لے لیا، چنانچہ ان لوگوں نے دو صحابہ کرام سیدنا خبیب بن عدی اور سیدنا زید بن دثنہ رضی اللہ عنہما کو گرفتار کر لیا اور ان کے علاوہ باقی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو انہوں نے تہ تیغ کر دیا۔ اور یہ واقعہ بھی ماہ صفر میں پیش آیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دونوں المناک واقعات کی اطلاع ایک ہی شب میں ملی۔ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہایت ہی افسردہ اور غمگین ہوئے کہ پورا ایک مہینہ ان کے لیے بددعا کرتے رہے۔ اور پھر بددعا کرنا ترک کر دیا۔ اس قسم کی دعائے قنوت کو قنوت نازلہ کہا جاتا ہے۔ فرضی نماز میں اس کے علاوہ کوئی قنوت نہیں ہے۔ یہ دعائے قنوت بڑے بڑے المناک اور دردناک واقعات کے ساتھ مخصوص ہے ورنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم دعائے قنوت نہیں پڑھتے تھے، الا یہ کہ مسلمانوں کے لیے دعا فرمائیں یا کفار میں سے بدعہد، عہد شکن قسم کے لوگوں کے لیے بد دعا کریں۔ رہا نماز فجر میں مسند أحمد اور دارقطنی کے حوالے سے قنوت کے پڑھنے کا التزام و مواظبت کا اضافہ تو یہ قابل استدلال نہیں کیونکہ یہ اضافہ سنداً ضعیف ہے، نیز قنوت نازلہ کسی نماز کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ اسے تمام نمازوں میں پڑھا جا سکتا ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے کئی مسائل پر روشنی پڑتی ہے۔ نماز فجر میں آپ سے دعائے قنوت نازلہ ثابت ہے۔ عہد شکنی اور بدعہدی کی بنا پر مقتول صحابہ کی وجہ سے مہینہ بھر آپ بددعا کرتے رہے۔ ظاہر ہے یہ فرض نماز ہی تھی۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ رکوع کے بعد دعا فرماتے رہے۔
➋ یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام دین تبلیغ ہے۔ مبلغین کی جماعت تیار رہنی چاہئے۔ جہاں تبلیغ کی ضرورت ہو وہاں جماعتی شکل میں تبلیغ کے لیے جانا چاہیے۔
➌ نظم جماعت کی طرف بھی اس سے اشارہ ملتا ہے اور اطاعت امیر بھی اس سے ظاہر ہے۔
➍ ایک بات یہ بھی واضح ہوتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ذاتی علم غیب نہیں رکھتے تھے۔ اگر آپ کو علم غیب ہوتا تو اپنے تیار مبلغین کو قتل کے لیے کیوں بھیجتے۔ نعوذ باللہ! جان بوجھ کر تو آپ نے ایسا ہرگز نہیں کیا۔ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع موصول نہیں ہوئی اس وقت تک آپ کو اپنے بھیجے ہوئے مبلغین کی صورت حال کی کچھ خبر نہیں تھی۔
➎ احناف اسی حدیث کی روشنی میں بوقت ضرورت قنوت نازلہ کے قائل ہیں جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ نماز فجر میں ہمیشہ دعائے قنوت پڑھنے کے قائل ہیں اور اسے مسنون قرار دیتے ہیں۔
➏ قنوت نازلہ کا طریقہ یہ ہے کہ امام رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعائے قنوت نازلہ پڑھے اور مقتدی آمین کہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 241   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3170  
3170. حضرت عاصم الاحول س روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس ؓ سے قنوت کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: قنوت رکوع سے پہلے ہے۔ میں نے عرض کیا: فلاں صاحب کہتے ہیں کہ آپ نے رکوع کے بعد کہاہے۔ حضرت انس ؓ نےفرمایا کہ اس نے غلط کہا ہے۔ پھر انھوں نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ نبی کریم ﷺ نےایک مہینے تک رکوع کے بعد قنوت کی تھی، جس میں آپ بنو سلیم کے چند قبائل پر بددعا کرتے تھے۔ واقعہ یہ ہوا کہ آپ نے چالیس یا ستر قراء کو مشرکین کی تعلیم وتبلیغ کے لیے بھیجا تو ان لوگوں نےانھیں پکڑ کر قتل کردیا تھا، حالانکہ نبی کریم ﷺ سے ان کا معاہدہ تھا۔ (حضرت انس ؓنےفرمایا کہ) میں نے آپ ﷺ کو کسی معاملے میں اتنا غمگین اور رنجیدہ نہیں دیکھا جتنا ان (قراء) کی شہادت پر آپ غمناک ہوئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3170]
حدیث حاشیہ:
کیوں کہ یہ لوگ قاری اور عالم تھے۔
اگر یہ زندہ رہتے تو ان سے ہزارہا لوگوں کو فائدہ پہنچتا۔
اسی لیے ایک سچے عالم کی موت کو عالم جہان کی موت کہاگیا ہے۔
قنوت قبل الرکوع اور بعدالرکوع کے متعلق شیخ الحدیث حضرت مولانا استاذ عبیداللہ صاحب مبارک پوری فرماتے ہیں۔
ورواه ابن المنذر عن حميد عن أنس بلفظ:
إن بعض أصحاب النبي - صلى الله عليه وسلم - قنتوا في صلاة الفجر قبل الركوع، وبعضهم بعد الركوع، وهذا كله يدل على اختلاف عمل الصحابة في محل القنوت المكتوبة فقنت بعضهم قبل الركوع وبعضهم بعده، وأما النبي - صلى الله عليه وسلم - فلم يثبت عنه القنوت في المكتوبة إلا عند النازلة، ولم يقنت في النازلة إلا بعد الركوع، هذا ما تحقق لي، والله أعلم. (مرعاة المفاتیح، جلد: 2ص: 224)
یعنی حضرت انس ؓ کی اسی روایت کو ابن منذر نے اس طرح روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ رسول ﷺ فجر میں قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے، بعض رکوع کے بعد پڑھتے اور ان سب سے معلوم ہوتاہے کہ فرض نمازوں میں محل قنوت کے بارے میں صحابہ میں اختلاف تھا اور نبی کریم ﷺ سے فرض نمازوں میں سوائے قنوت نازلہ کے اور کوئی قنوت ثابت نہیں ہوئی۔
آپ نے صرف قنوت نازلہ پڑھی اور وہ رکوع کے بعد پڑھی ہے میری تحقیق یہی ہے واللہ أعلم۔
امام نووی استحباب القنوت میں فرماتے ہیں:
و محل القنوت بعد رفع الراس فی الرکوع فی الرکعۃ الاخیرہ یعنی قنوت پڑھنے کا محل آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے۔
حدیث ہذا میں حضرت انس ؓ کے بیان متعلق قنوت کا تعلق ان کی اپنی معلومات کی حد تک ہے۔
واللہ أعلم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3170   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3170  
3170. حضرت عاصم الاحول س روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس ؓ سے قنوت کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: قنوت رکوع سے پہلے ہے۔ میں نے عرض کیا: فلاں صاحب کہتے ہیں کہ آپ نے رکوع کے بعد کہاہے۔ حضرت انس ؓ نےفرمایا کہ اس نے غلط کہا ہے۔ پھر انھوں نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ نبی کریم ﷺ نےایک مہینے تک رکوع کے بعد قنوت کی تھی، جس میں آپ بنو سلیم کے چند قبائل پر بددعا کرتے تھے۔ واقعہ یہ ہوا کہ آپ نے چالیس یا ستر قراء کو مشرکین کی تعلیم وتبلیغ کے لیے بھیجا تو ان لوگوں نےانھیں پکڑ کر قتل کردیا تھا، حالانکہ نبی کریم ﷺ سے ان کا معاہدہ تھا۔ (حضرت انس ؓنےفرمایا کہ) میں نے آپ ﷺ کو کسی معاملے میں اتنا غمگین اور رنجیدہ نہیں دیکھا جتنا ان (قراء) کی شہادت پر آپ غمناک ہوئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3170]
حدیث حاشیہ:

جن قراء کو ان مشرکین نے شہید کیا وہ بڑے عالم اور قرآن کے عامل تھے۔
رسول اللہ ﷺ اس لیے غمناک ہوئے کہ یہ اگریہ زندہ رہتے تو ان کے ذریعے سے بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔
اسی لیے کہا جاتا ہے:
(مَوتُ العَالِمِ مَوتُ العَالَمِ)
یعنی ایک عالم کی موت پورے جہان کی موت ہے۔

اس حدیث کے مطابق مشرکین کا آپ سے عہد وپیمان تھا، جب انھوں نے عہد شکنی کرتے ہوئے ظلم اور بربریت کے ساتھ سترقرائے کرام کو شہید کردیا تو آپ نے ان کے خلاف بددعا کی اور پورا ایک مہینہ فرض نمازوں میں قنوت کرتے رہے۔

قنوت کے متعلق ہمارا موقف یہ ہے کہ قنوت نازلہ رکوع کے بعد اورقنوت وتررکوع سے پہلے ہے جیسا کہ سنن نسائی میں اس کی صراحت ہے۔
(سنن النسائي، التطبیق، حدیث: 1071 و کتاب قیام اللیل، حدیث: 1700)
اس مسئلے کے متعلق تفصیل پہلے گزرچکی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3170