سلسله احاديث صحيحه
الايمان والتوحيد والدين والقدر -- ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان

اسرا و معراج کے موقع پر دشمنوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ استہزا اور پھر ندامت
حدیث نمبر: 252
- (لَمَّا كان ليلة أُسْرِي بِي، وأصبحتُ بمكةَ فَظِعْتُ بِأمْري، وعَرَفتُ أنَّ الناسَ مُكَذِّبِّي. فَقَعَدَ معتزلاً حزيناً. قال: فَمَرَّ عدوُّ اللهِ أبو جَهْلٍ، فجاء حتى جلس إليه، فقالَ له- كالمستهزئِ-: هل كانَ من شيءٍ؟ فقال رسول الله- صلى الله عليه وسلم -: نعم. قال: ما هو؟ قال: إنه أُسْريَ بي الليلةَ. قال: إلى أين؟ قال: إلى بيت المقدس. قال: ثم أصبحتَ بين ظَهْرانَيْنَا؟ قال: نعم. فلم يَرَ أنه يُكَذِّبُهًُ مخافة أن يجْحَدَهُ الحديثَ إذا دعا قومَهُ إليه، قال: أرأيت إن دعوتُ قومَكَ تُحَدِّثُهُم ما حَدَّثْتَنِي؟ فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: نعم فقال: هَيَّا مَعشَرَ بني كعبِ بن لُؤيٍّ! فانتفضت إليه المجالس؛ وجاءوا حتى جَلَسُوا إليهما، قال: حَدِّثْ قومَكَ بما حَدِّثْتَنِي. فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: إني أُسْرِيَ بي الليلة. قالوا: إلى أين؟ قال: إلى بيتِ المقدس. قالوا: ثم أصبحتَ بين ظَهْرَانَيْنا؟ قال: نعم. قال: فَمِنْ بين مُصَفِّقٍ، ومن بين واضعٍ يَدَهُ على رأسِهِ متعجباً للكذبِ؛ زعم! قالوا: وهل تستطيعُ أن تَنْعَتَ لنا المسجد- وفي القومِ مَنْ قَد سافَرَ إلى ذلك البلد ورأى المسجد-؟! فقال رسول الله- صلى الله عليه وسلم -: فذهبتُ أنعتُ، فما زلتُ أَنْعَتُ حتى الْتَبَسَ عليَّ بعضُ النَّعْتِ. قال: فَجِيءَ بالمسجد وأنا أنظُرُ حتى وُضِعَ دُونَ دار عقالٍ- أوعقيلٍ -، فنعتُّه وأنا أنظرُ إليه- قال: وكان مع هذا نعتُ لم أحفظه-قال: فقال القوم: أما النعت؛ فوالله! لقد أصاب).
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مجھے اسرا کرایا گیا اور میں صبح کو مکہ میں پہنچ گیا، میں گھبرا گیا اور مجھے علم ہو گیا کہ لوگ مجھے جھٹلا دیں گے، سو آپ خلوت میں غمزدہ ہو کر بیٹھ گئے۔ اللہ کا دشمن ابوجہل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا، وہ آیا اور آپ کے پاس بیٹھ گیا اور مذاق کرتے ہوئے کہا: کیا کچھ ہوا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ اس نے کہا: کیا ہوا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج رات مجھے اسرا کرایا گیا ہے۔ اس نے کہا: کہاں تک؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت المقدس تک۔ اس نے کہا: پھر صبح کو آپ ہمارے پاس بھی پہنچ گئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔ ابوجاہل نے سوچا کہ ابھی اس کو نہیں جھٹلاتا، کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اپنی قوم کو بلاؤں اور یہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی بات بیان کرنے سے انکار کر دے۔ اس لئے ابوجہل نے کہا: اگر میں تیری قوم کو بلاؤں تو تو ان کے سامنے یہی گفتگو بیان کرے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ اس نے کہا: بنی کعب بنی لؤی کی جماعت ادھر آؤ۔ ساری کی ساری مجلسیں اس کی طرف ٹوٹ پڑیں، وہ سب کے سب آ گئے اور ان دونوں کے پاس بیٹھ گئے۔ ابوجہل نے کہا: (اے محمد!) جو بات مجھے بیان کی تھی، ان کو بھی بیان کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج رات مجھے اسرا کرایا گیا۔ انہوں نے کہا: کہاں تک؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت المقدس تک۔ انہوں نے کہا: پھر صبح کو یہاں بھی پہنچ گئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ (یہ سن کر) کوئی تالی بجانے لگ گیا اور کوئی (بزعم خود) اس جھوٹ پر متاثر ہو کر اپنے سر کو پکڑ کر بیٹھ گیا۔ پھر انہوں نے کہا: کیا مسجد اقصی کی علامت بیان کر سکتے ہو؟ ان میں سے بعض لوگوں نے اس علاقے کا سفر بھی کیا ہوا تھا اور مسجد اقصیٰ دیکھی ہوئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اس کی علامتیں بیان کرنی شروع کر دیں، لیکن بعض نشانیوں کے بارے میں اشتباہ و التباس سا ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد اقصیٰ (کی تمثیل کو) کو لایا گیا اور عقال یا عقیل کے گھر سے بھی قریب رکھ دیا گیا، میں نے اسے دیکھ کر نشانیاں بیان کر دیں، اس کے باوجود مجھے کچھ نشانیاں یاد نہ رہیں۔ لوگوں نے کہا: رہا مسئلہ علامات کا، تو وہ تو اللہ کی قسم! آپ نے درست بیان کر دی ہیں۔