صحيح البخاري
كِتَاب الْحَيْضِ -- کتاب: حیض کے احکام و مسائل
12. بَابُ الطِّيبِ لِلْمَرْأَةِ عِنْدَ غُسْلِهَا مِنَ الْمَحِيضِ:
باب: عورت حیض کے غسل میں خوشبو استعمال کرے۔
حدیث نمبر: 313
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حَفْصَةَ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: أَوْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ:" كُنَّا نُنْهَى أَنْ نُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، وَلَا نَكْتَحِلَ وَلَا نَتَطَيَّبَ وَلَا نَلْبَسَ ثَوْبًا مَصْبُوغًا إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ، وَقَدْ رُخِّصَ لَنَا عِنْدَ الطُّهْرِ إِذَا اغْتَسَلَتْ إِحْدَانَا مِنْ مَحِيضِهَا فِي نُبْذَةٍ مِنْ كُسْتِ أَظْفَارٍ، وَكُنَّا نُنْهَى عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ"، قَالَ: رَوَاهُ هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے ایوب سختیانی سے، انہوں نے حفصہ سے، وہ ام عطیہ سے، آپ نے فرمایا کہ ہمیں کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے منع کیا جاتا تھا۔ لیکن شوہر کی موت پر چار مہینے دس دن کے سوگ کا حکم تھا۔ ان دنوں میں ہم نہ سرمہ لگاتیں نہ خوشبو اور عصب (یمن کی بنی ہوئی ایک چادر جو رنگین بھی ہوتی تھی) کے علاوہ کوئی رنگین کپڑا ہم استعمال نہیں کرتی تھیں اور ہمیں (عدت کے دنوں میں) حیض کے غسل کے بعد کست اظفار استعمال کرنے کی اجازت تھی اور ہمیں جنازہ کے پیچھے چلنے سے منع کیا جاتا تھا۔ اس حدیث کو ہشام بن حسان نے حفصہ سے، انہوں نے ام عطیہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2087  
´کیا شوہر کے علاوہ عورت دوسرے لوگوں کا سوگ منا سکتی ہے؟`
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی میت پہ تین دن سے زیادہ سوگ نہ منایا جائے البتہ بیوی اپنے شوہر پر چار ماہ دس دن تک سوگ کرے، رنگا ہوا کپڑا نہ پہنے، ہاں رنگین بنی ہوئی چادر اوڑھ سکتی ہے، سرمہ اور خوشبو نہ لگائے، مگر حیض سے پاکی کے شروع میں تھوڑا سا قسط یا اظفار (خوشبو) لگا لے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2087]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1) (ثوب عصب)
سے مراد خاص قسم کا کپڑا ہےجو یمن میں بنتا تھا۔
کاتے ہوئے سوت کو گرہ دے کر رنگا جاتا تھا۔
گرہ کے اندر رنگ اثر نہ کرتا‘ جب کھولتے تو کچھ دھاگا سفید ہوتا‘ کچھ رنگ دار۔
اس دھاگے سے جو کپڑ بنا جاتا تھا اس میں بھی سفیدی اور رنگ بے ترتیب انداز سے موجود ہوتے۔
اسے (ثوب عصب)
کہتے تھے جس کا ترجمہ:
کچھ سفید‘کچھ رنگین کپڑا کیا گیا۔

(2)
عدت کے دوران اس قسم کا کپڑا پہننا جائز ہے کیونکہ اس میں سفید رنگ کافی مقدار میں موجود ہونے کی وجہ سے کپڑا شوخ رنگ کا نہیں رہتا۔

(3)
عدت دوران خوشبو کا استعمال درست نہیں۔

(4)
ماہواری کے غسل کے بعد خوشبو کا پھویا مقام مخصوص میں رکھنے کا مقصد یہ ہے جسم کی ناگوار بو ختم ہو جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2087   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2302  
´عدت گزارنے والی عورت کو جن چیزوں سے بچنا چاہئے ان کا بیان۔`
ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورت کسی پر بھی تین دن سے زیادہ سوگ نہ منائے سوائے شوہر کے، وہ اس پر چار مہینے دس دن سوگ منائے گی (اس عرصہ میں) وہ سفید سیاہ دھاری دار کپڑے کے علاوہ کوئی رنگین کپڑا نہ پہنے، نہ سرمہ لگائے، اور نہ خوشبو استعمال کرے، ہاں حیض سے فارغ ہونے کے بعد تھوڑی سی قسط یا اظفار کی خوشبو (حیض کے مقام پر) استعمال کرے۔‏‏‏‏ راوی یعقوب نے: سفید سیاہ دھاری دار کپڑے کے بجائے: دھلے ہوئے کپڑے کا ذکر کیا، انہوں نے یہ بھی اضافہ کیا کہ اور نہ خضاب لگائے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2302]
فوائد ومسائل:
عورت خواہ مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ، چھوٹی ہو یا بڑی، شوہر کی وفات پر اس کے لئے واجب ہے کہ چار ماہ دس دن تک مذکورہ امور کی پابندی کرے اور اس طرح سے سادگی اپنائے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2302   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:313  
313. حضرت ام عطیہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہمیں کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے روکا جاتا تھا، سوائے شوہر کےکہ اس کے معاملے میں چار ماہ دس دن تک سوگ کا حکم تھا، نیز یہ بھی حکم تھا کہ اس دوران میں ہم نہ سرمہ لگائیں، نہ خوشبو استعمال کریں اور نہ کوئی رنگین کپڑا پہنیں، مگر جس کپڑے کا دھاگا بناوٹ کے وقت ہی رنگا ہوا ہو۔ البتہ حیض سے فراغت کے وقت یہ اجازت تھی کہ جب ہم میں سے کوئی غسل حیض کرے تو وہ کست أظفار (خوشبو) استعمال کرے۔ اس کے علاوہ ہمیں جنارے کے ساتھ جانے سے بھی روک دیا گیا تھا۔ اس حدیث کی روایت ہشام بن حسان نے حفصہ سے، انهوں نے ام عطیہ‬ ؓ س‬ے، انہوں نے نبی ﷺ سے بھی کی ہے [صحيح بخاري، حديث نمبر:313]
حدیث حاشیہ:

حیض کے خون میں زہریلا مادہ ہوتا ہے جس کے اخراج سے مخصوص محل کی جلد سکڑ جاتی ہے اوراس کی رنگت بھی بدل جاتی ہے۔
اس کی سکڑن کے ازالے ورتازگی کے اعادے کے لیے خوشبو کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ضرورت قسط ہندی کے استعمال سے پوری ہوجاتی ہے۔
غسل حیض کے بعد اس خوشبو کے استعمال کی اس حد تک تاکید ہے کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے اسے چار ماہ دس دن تک زینت اور خوشبو استعمال کرنے کی اجازت نہیں، اسے بھی غسل حیض کے بعد خوشبو استعمال کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔
خوشبو کااستعمال اس لیے بھی ضروری ہے کہ نفرت وکراہت دور ہوجائے اور آئندہ نماز وغیرہ کے وقت خون حیض کا تصور تکدر طبع کا باعث نہ ہو، لیکن ہمارے برصغیر (پاک وہند)
کی بیشتر عورتیں اس امرنبوی کو نہ معلوم کیوں نظر انداز کر دیتی ہیں۔

عصب اس یمنی کپڑے کو کہتے ہیں جس کے سوت میں پہلے گرہیں باندھ لی جاتی تھیں، پھر اسی حالت میں رنگنے کے بعد اس سے کپڑا بنادیاجاتاتھا، جہاں جہاں گرہیں ہوتیں وہاں رنگ نہیں چڑھتا تھا، بلکہ سادہ رہ جاتاتھا، غالباً اسی وجہ سے بعض حضرات نے اسے دھاری دار چادر سے تعبیر کیا ہے۔
حدیث نبوی کا مقصد حالت ِ عدت میں ان تمام کپڑوں کےپہننے کی ممانعت ہے جو بغرض زینت رنگے جاتے ہیں۔
ہاں ثوب عصب کی اجازت اس لیے دی کہ اس دور میں یہی عام لباس تھا۔
اگر یہی دھاری دار یمنی کپڑا اعلیٰ قسم کا باعث زینت ہوتو اسے بھی پہننے کی اجازت نہیں، جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ حالت سوگ میں عورت نہ رنگین کپڑا پہنے، نہ ثوب عصب پہنے اور نہ سرمہ لگائے۔
(سنن النسائي، الطلاق، حدیث: 3564)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ثوب عصب اگرباعث زینت ہوتواس کا زیب تن کرنا بھی سوگ والی کے لیے ممنوع ہوگا۔

زمانہ جاہلیت میں عدت گزارنے کا یہ طریقہ تھا کہ عورت کو نہایت تنگ وتاریک کوٹھری میں سب سے الگ تھلگ ایک سال کے لیے مقید کردیا جاتا۔
اس دوران میں اسے غسل کی بھی اجازت نہ تھی۔
ایک سال کے بعد نہایت قبیح شکل وصورت کے ساتھ نکلتی تھی، پھر کسی پرندے کو عورت کے خاص خاص حصوں کے ساتھ مس کیا جاتا۔
اکثرحالات میں تعفن کی تاب نہ لاکر پرندہ مرجاتا، پھربکری کی مینگنی عورت کے ہاتھ میں دے دیتے تھے، جسے وہ اپنی پشت کے پیچھے پھینک دیتی، گویا اس نے عدت کو پھینک دیا ہے۔
اسلام نے ان تمام رسوم کو خاتمہ کرکے نہایت معقول و مہذب شکل میں عدتِ سوگ کو باقی رکھا۔

امام بخاری ؒ نے ہشام کی روایت کو آگے موصولاً بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الطلاق، حدیث: 5343)
اس روایت میں وضاحت ہے کہ سوگ والی عورت جب حیض سے فارغ ہوتو نہانے کے بعد اسے کچھ کست اور اظفار کو استعمال کرناچاہیے۔
کست، قسط ہندی کو کہتے ہیں جسے عود یا لوبان بھی کہاجاتا ہے۔
اور اظفار ایک خوشبو دار لکڑی ہے جو ناخن کے مشابہ ہوتی ہے یا اس لکڑی کوناخن کی طرح کاٹ کرخوشبو میں استعمال کیاجاتا ہے اور اسے أظفارالطیب بھی کہتے ہیں۔
بعض حضرات نے اسے ظفار پڑھاہے۔
اسے مراد یمن کا شہر ہے۔
وہاں سے عود ہندی کو درآمد کرکے عرب ممالک میں برآمد کیا جاتا تھا۔
خلاصہ یہ ہے کہ غسل کے وقت ان خوشبوؤں میں سے کسی ایک کو استعمال کرے تاکہ بدبو کا ازالہ ہوجائے۔
(فتح الباري: 537/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 313