سلسله احاديث صحيحه
الاذان و الصلاة -- اذان اور نماز

ایک دفعہ شراب پینے سے چالیس روز نماز قبول نہیں ہوتی
حدیث نمبر: 492
-" لا يشرب الخمر رجل من أمتي فتقبل له صلاة أربعين صباحا".
ابن دیلمی، جو بیت المقدس میں فروکش تھا۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی تلاش میں مدینہ منورہ میں ٹھہرا، جب اس نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا: تو بتلایا گیا کہ وہ تو مکہ کی طرف جا چکے ہیں۔ وہ بھی ان کی پیچھے چل دیا، (مکہ آنے پر) معلوم ہوا کہ وہ تو طائف کی طرف روانہ ہو چکے ہیں۔ وہ ان کی کھوج میں طائف کی طرف روانہ ہو گیا اور بالآخر ان کو ایک کھیت میں پا لیا۔ وہ شراب نوشی میں بدنام ایک قریشی آدمی اور وہ نشے کی وجہ سے ڈول رہا تھا، کی کوکھ پر ہاتھ رکھ کر چل رہے تھے۔ جب میں انہیں ملا تو سلام کہا، انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کون سی چیز تجھے یہاں لے آئی ہے؟ تو کہاں سے آیا ہے؟ میں نے انہیں سارا واقعہ سنایا اور پھر پوچھا: اے عبداللہ بن عمرو! کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شراب کے بارے میں کچھ فرماتے سنا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ (یہ سن کر) قریشی نے اپنا ہاتھ کھینچا اور چلا گیا۔ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: میری امت کا جو آدمی شراب پیتا ہے، چالیس روز اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔
  الشيخ محمد محفوظ اعوان حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سلسله احاديث صحيحه 492  
´ایک دفعہ شراب پینے سے چالیس روز نماز قبول نہیں ہوتی`
«. . . - لا يشرب الخمر رجل من أمتي فتقبل له صلاة أربعين صباحا . . .»
. . . ابن دیلمی، جو بیت المقدس میں فروکش تھا۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی تلاش میں مدینہ منورہ میں ٹھہرا، جب اس نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا: تو بتلایا گیا کہ وہ تو مکہ کی طرف جا چکے ہیں۔ وہ بھی ان کی پیچھے چل دیا، (مکہ آنے پر) معلوم ہوا کہ وہ تو طائف کی طرف روانہ ہو چکے ہیں۔ وہ ان کی کھوج میں طائف کی طرف روانہ ہو گیا اور بالآخر ان کو ایک کھیت میں پا لیا۔ وہ شراب نوشی میں بدنام ایک قریشی آدمی اور وہ نشے کی وجہ سے ڈول رہا تھا، کی کوکھ پر ہاتھ رکھ کر چل رہے تھے۔ جب میں انہیں ملا تو سلام کہا، انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کون سی چیز تجھے یہاں لے آئی ہے؟ تو کہاں سے آیا ہے؟ میں نے انہیں سارا واقعہ سنایا اور پھر پوچھا: اے عبداللہ بن عمرو! کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شراب کے بارے میں کچھ فرماتے سنا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ (یہ سن کر) قریشی نے اپنا ہاتھ کھینچا اور چلا گیا۔ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: میری امت کا جو آدمی شراب پیتا ہے، چالیس روز اس کی نماز قبول نہیں ہوتی . . . [سلسله احاديث صحيحه/الاذان و الصلاة: 492]

فوائد و مسائل
یہ شراب کی نحوست ہے کہ نماز جیسا عظیم فریضہ ادائیگی کے باوجود شرف قبولیت حاصل نہیں کر سکتا۔ قبول کے دو معانی ہیں:
➊ کفایت کرنا، ➋ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا ثواب ملنا۔
اس حدیث میں دوسرا معنی مراد ہے، جو کہ قبول کا اصل معنی ہے، یعنی شراب پینے والا نماز کے ثواب سے محروم رہتا ہے، ہاں البتہ اس کی نماز ادا ہو جاتی ہے، مثال کے طور پر وہ نماز ظہر ادا کرنے سے اس فرض سے بری الذمہ ہو جائے گا اور اسے نماز ترک کرنے کا گناہ نہیں ملے گا، لیکن وہ اپنے جرم کی وجہ سے اس کے اجر و ثواب سے محروم رہے گا۔
   سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 492   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3377  
´شراب پینے والے کی نماز قبول نہ ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شراب پی کر مست ہو جائے (نشہ ہو جائے) اس کی نماز چالیس روز تک قبول نہیں ہوتی، اور اگر وہ اس دوران مر جائے تو وہ جہنم میں جائے گا، لیکن اگر وہ توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا، پھر اگر وہ توبہ سے پھر جائے اور شراب پئے، اور اسے نشہ آ جائے تو چالیس روز تک اس کی نماز قبول نہیں ہو گی، اگر وہ اس دوران مر گیا تو جہنم میں جائے گا، لیکن اگر وہ پھر توبہ کر لے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا، اگر وہ پھر پی کر بدمست ہو جائے تو پھر ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الأشربة/حدیث: 3377]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
گناہ کی سزا یہ بھی ہوسکتی ہے کہ عبادت قبول نہ ہو لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ شرابی نماز ترک کر دے کیونکہ ترک نماز ایک اور گناہ ہو گا جوشراب نوشی سے بھی بدتر ہے۔

(2)
توبہ سے کبیرہ گناہ بھی معاف ہو جاتا ہے۔

(3)
بار بار توبہ توڑنے سے مجرم کے دل میں توبہ کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ توبہ کرتے وقت دل سے ندامت پیدا نہیں ہوتی چنانچہ وہ توبہ قبول نہیں ہوتی۔

(4)
کبیرہ گناہوں کے مرتکب جہنم میں جائیں گے اور سخت سزا کے مستحق ہوں گے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3377