صحيح البخاري
كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ -- کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
3. بَابٌ في النُّجُومِ:
باب: ستاروں کا بیان۔
وَقَالَ قَتَادَةُ وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ سورة الملك آية 5 خَلَقَ هَذِهِ النُّجُومَ لِثَلَاثٍ جَعَلَهَا زِينَةً لِلسَّمَاءِ، وَرُجُومًا لِلشَّيَاطِينِ، وَعَلَامَاتٍ يُهْتَدَى بِهَا، فَمَنْ تَأَوَّلَ فِيهَا بِغَيْرِ ذَلِكَ أَخْطَأَ وَأَضَاعَ نَصِيبَهُ وَتَكَلَّفَ مَا لَا عِلْمَ لَهُ بِهِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ هَشِيمًا سورة الكهف آية 45 مُتَغَيِّرًا، وَالْأَبُّ: مَا يَأْكُلُ الْأَنْعَامُ، وَالْأَنَامُ: الْخَلْقُ، بَرْزَخٌ سورة المؤمنون آية 100 حَاجِبٌ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ أَلْفَافًا سورة النبأ آية 16 مُلْتَفَّةً، وَالْغُلْبُ: الْمُلْتَفَّةُ، فِرَاشًا سورة البقرة آية 22مِهَادًا، كَقَوْلِهِ وَلَكُمْ فِي الأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ سورة البقرة آية 36 نَكِدًا سورة الأعراف آية 58 قَلِيلًا.
‏‏‏‏ قتادہ نے (قرآن مجید کی اس آیت کے بارے میں) «ولقد زينا السماء الدنيا بمصابيح‏» کہ ہم نے زینت دی آسمان دنیا کو (تاروں کے) چراغوں سے۔ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کو تین فائدوں کے لیے پیدا کیا ہے۔ انہیں آسمان کی زینت بنایا، شیاطین پر مارنے کے لیے بنایا۔ اور (رات کی اندھیریوں میں) انہیں صحیح راستہ پر چلتے رہنے کے لیے نشانات قرار دیا۔ پس جس شخص نے ان کے سوا دوسری باتیں کہیں، اس نے غلطی کی، اپنا حصہ تباہ کیا (اپنا وقت ضائع کیا یا اپنا ایمان کھو دیا) اور جو بات غیب کی معلوم نہیں ہو سکتی اس کو اس نے معلوم کرنا چاہا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سورۃ الکہف میں لفظ «هشيما‏» ہے اس کا معنی بدلا ہوا۔ «الأب» کے معنی مویشیوں کا چارہ۔ یہ لفظ سورۃ عبس میں ہے اور سورۃ الرحمن میں لفظ «الأنام» بمعنی مخلوق ہے اور لفظ «برزخ‏» بمعنی پردہ ہے۔ اور مجاہد تابعی نے کہا کہ لفظ «ألفافا‏» بمعنی «ملتفة» ہے۔ اس کے معنی گہرے لپٹے ہوئے۔ «الغلب» بھی بمعنی «الملتفة» اور لفظ «فراشا‏» بمعنی «مهاد» ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ میں فرمایا «ولكم في الأرض مستقر‏» ( «مستقر‏» بھی بمعنی «مهاد» ہے) اور سورۃ الاعراف میں جو لفظ «نكدا‏» ہے اس کا معنی تھوڑا ہے۔