سلسله احاديث صحيحه
الاذان و الصلاة -- اذان اور نماز

نماز عشاء تاخیر سے ادا کرنا امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے
حدیث نمبر: 622
- (على رِسلِكم! أَبشرُوا، إنّ من نعمةِ اللهِ عليكم: أنّه ليسَ أحدٌ من النّاسِ يصلِّي هذه السَّاعة غيرَكم).
سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور کشتی میں میرے ساتھ آنے والے ساتھیوں نے وادی بقیع بطحان میں پڑاؤ ڈالا ہوا تھا، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں فروکش تھے۔ ہم میں سے کچھ لوگ باری باری ہر روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز عشاء ادا کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے۔ جس دن میں اور میرے ساتھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام میں مصروف تھے، اس لیے نماز عشاء کو مؤخر کیا اور اتنی تاخیر کی کہ (تقریباً) نصف رات گزر گئی۔ (بالآخر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، نماز پڑھائی اور فارغ ہونے کے بعد حاضرین سے فرمایا: ذرا ٹھہرو! خوش ہو جاؤ، اللہ تعالیٰ نے تم پر انعام کیا ہے، تمہارے علاوہ کوئی فرد ایسا نہیں ہے جو اس گھڑی نماز پڑھ رہا ہو۔ یا فرمایا: تمہارے علاوہ کسی نے بھی یہ نماز (اس وقت میں) ادا نہیں کی۔ راوی کو یاد نہیں رہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کون سا جملہ ارشاد فرمایا تھا۔ سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سن کر ہم خوشی خوشی گھر لوٹے۔ حدیث میں لفظ «اِبهَارَّ» کے معانی نصف ہونے کے ہیں، ہر چیز کے وسط کو «بَهرَةٌ» کہتے ہیں۔ لیکن ایک قول کے مطابق «اِبهَارَّ اللَّيلُ» اس وقت کہا جاتا ہے جب ستارے طلوع ہو کر چمکنے لگ جائیں۔ لیکن پہلا معنی زیادہ مستعمل ہے۔