سلسله احاديث صحيحه
الزكاة والسخاء والصدقة والهبة -- زکوۃ، سخاوت، صدقہ، ہبہ

کیا اوقیہ کا مالک سوال نہیں کر سکتا؟، کتنی مقدار کا مالک سوال نہیں کر سکتا؟
حدیث نمبر: 986
-" إنه ليغضب علي أن لا أجد ما أعطيه، من سأل منكم وله أوقية أو عدلها فقد سأل إلحافا".
بنو اسد قبیلے کا ایک آدمی کہتا ہے: میں نے اپنے اہل سمیت بقیع الغرقد میں پڑاؤ ڈالا، میرے اہل نے مجھے کہا: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں اور کھانے کے لیے کوئی چیز مانگ کر لائیں، پھر وہ اپنی ضروریات کا تذکرہ کرنے میں مصروف ہو گئے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، میں نے دیکھا کہ ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا سوال کر رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے: تجھے دینے کے لیے میرے پاس کچھ نہں ہے، وہ آدمی غصے کی حالت میں یہ کہتے ہوئے چل دیا، میری عمر کی قسم! آپ جس کو چاہتے ہیں دیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ مجھ پر اس بنا پر ناراض ہو رہا ہے کہ اسے دینے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں ہے، حالانکہ تم میں سے جس آدمی نے سوال کیا اور اس کے پاس ایک اوقیہ (چالیس درہم) یا اس کے برابر کوئی چیز ہو تو اس نے ضد اور اصرار کے ساتھ سوال کیا۔ (جب اس) اسدی نے (یہ بات سنی تو) کہا: ہماری اونٹنی اوقیہ سے تو بہتر ہے۔ سو میں لوٹ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال نہیں کیا۔ بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو اور منقیٰ لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو بھی دیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں غنی کر دیا۔ مالک کہتے ہیں کہ ایک اوقیہ، چالیس درہم کا ہوتا ہے۔