سلسله احاديث صحيحه
الحدود والمعاملات والاحكام -- حدود، معاملات، احکام

مقتول کے لواحقین کو دو اختیار حاصل ہیں
حدیث نمبر: 1192
- (إنّ مكة حرّمها الله ولم يحرّمها الناس، فلا يحلّ لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دماً، ولا يعضد بها شجرة؛ فإن أحدٌ ترخّص لقتال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فيها؛ فقولوا: إنّ الله قد أذن لرسوله ولم يأذن لكم، وإنما أذن لي فيها ساعةً من نهار، ثم عادت حرمتها اليوم كحرمتها بالأمس، وليبلغ الشاهدُ الغائب).
سیدنا ابوشریح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن ایک بات ارشاد فرمائی، میرے کانوں نے اسے سنا، میرے دل نے اسے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات ارشاد فرماتے ہوئے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا: بیشک مکہ کو لوگوں نے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے حرمت والا قرار دیا، اب کسی ایسے شخص کے لیے حلال نہیں، جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، کہ وہ یہاں خون بہائے یا درخت کاٹے۔ اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتال (‏‏‏‏کو دلیل بنا کر اپنے لیے) رخصت نکالنا چاہے تو اسے کہہ دینا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مکہ میں (‏‏‏‏قتال کی) اجازت دی اور تمہیں نہیں دی اور مجھے بھی دن کے کچھ وقت کے لیے (‏‏‏‏لڑائی کرنے کی) اجازت ملی ہے، اس کے بعد اس کی حرمت اسی طرح ہو گئی جس طرح کل تھی۔ موجودہ لوگ (‏‏‏‏یہ احکام) غائب لوگوں تک پہنچا دیں۔