سلسله احاديث صحيحه
الخلافة والبيعة والطاعة والامارة -- خلافت، بیعت، اطاعت اور امارت کا بیان

کن امور پر بیعت کی جائے
حدیث نمبر: 1339
-" تبايعوني على السمع والطاعة في النشاط والكسل والنفقة في العسر واليسر وعلى الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر وأن تقولوا في الله لا تخافون في الله لومة لائم وعلى أن تنصروني فتمنعوني إذا قدمت عليكم مما تمنعون منه أنفسكم وأزواجكم وأبناءكم ولكم الجنة".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں دس سال تک ٹھہرے رہے، عکاظ، مجنہ اور حج کے موسم میں منیٰ جا کر لوگوں کو کہتے: کون ہے جو مجھے پناہ دے، کون ہے جو میری مدد کرے، تاکہ میں لوگوں تک اپنے رب کا پیغام پہنچا سکوں اور اسے جنت مل سکے؟ جب یمن یا مضر کا کوئی باشندہ مکہ میں آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم اسے ملتی اور کہتی کہ قریش کے فلاں آدمی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ٰ) سے بچ کر رہنا، کہیں وہ تجھے بھٹکا نہ دے، آپ ان کے گھروں میں چل رہے ہوتے تھے، وہ آپ کی طرف اشارے کر کے آپ کا تعین کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یثرب (مدینہ) سے آپ کی طرف بھیجا ہم نے آپ کو جگہ دی اور آپ کی تصدیق کی ہمارا آدمی آپ کے پاس پہنچتا۔ آپ پر ایمان لاتا۔ آپ اسے قرآن مجید پڑھاتے، پھر وہ اپنے گھر لوٹ آتا اور لوگ اس کے ذریعے دائرہ اسلام میں داخل ہوتے، یہاں تک کہ انصاریوں کے ہر محلے میں مسلمانوں کی ایک معقول تعداد بن گئی۔ ایک دن ان سب (انصاریوں) نے مشورہ کیا اور کہا: کہ ہم کب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑے رکھیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے پہاڑوں میں در بدر اور ڈرتے ڈرتے پھرتے رہیں گے؟ اس مشورے کے بعد حج کے موسم میں ہم میں سے ستر آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ ہو گئے، عقبہ گھاٹی میں جمع ہونے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے طے پایا۔ ہم ایک دو دو آدمیوں کی صورت میں وہاں جمع ہوتے رہے، یہاں تک کہ سارے اکٹھے ہو گئے ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم آپ کی بیعت کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس بات پر میری بیعت کرو کہ چستی و سستی میں میری بات سنو گے اور مانو گے، تنگدستی او خوشحالی میں خرچہ کرو گے، نیکی کا حکم کرو گے اور برائی سے منع کرو گے، تم اللہ کے حق میں بات کرو گے اور اس کے بارے میں ملامت والے کی ملامت سے نہیں ڈرو گے، جب میں تمہارے پاس آ جاؤں تو میری مدد کرو گے اور جن (مکروہات سے) اپنے آپ کو، اپنی بیویوں کو اور اپنی اولاد کو بچاتے ہو، مجھے بھی بچاؤ گے، (اگر تم نے ایسے کیا تو) تمہیں جنت ملے گی۔ ہم یہ سن کر آپ کی بیعت کرنے کے لیے کھڑے ہو گئے، لیکن سعد بن زرارہ، جو سب سے چھوٹا تھا، نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا: یثرب والو! ذرا ٹھہرو، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ ہی سمجھ کر سفر کر کے آئیں ہیں، (لیکن یاد رکھو کہ) آپ کو مکہ سے نکالنے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پورا عرب ہم سے جدا ہو جائے گا، ہمارے سردار قتل ہوں گے اور تم تلواروں کا لقمہ بنو گے۔ اگر تم (ان آزمائشوں پر) صبر کرتے ہو تو ٹھیک ہے اور اگر بزدلی کی بنا پر ڈرنا ہے تو ابھی وضاحت کر دو، تاکہ تم اللہ کے ہاں اپنا عذر پیش کر سکو۔ ہم نے کہا: سعد! اب آگے سے ہٹ جاؤ، اللہ کی قسم! ہم اس بیعت کو چھوڑیں گے نہ توڑیں گے۔ ہم کھڑے ہوئے، آپ کی بیعت کی، آپ نے ہم سے بیعت لی اور ہم پر کچھ شرطیں عائد کیں اور اس کے بدلے ہم کو جنت عطا کی۔