صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
19. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ} :
باب: (یوسف علیہ السلام کا بیان) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”بیشک یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات میں پوچھنے والوں کیلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں“۔
حدیث نمبر: 3387
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ هُوَ ابْنُ أَخِي جُوَيْرِيَةَ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ وَأَبَا عُبَيْدٍ أَخْبَرَاهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَرْحَمُ اللَّهُ لُوطًا لَقَدْ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ مَا لَبِثَ يُوسُفُ ثُمَّ أَتَانِي الدَّاعِي لَأَجَبْتُهُ".
ہم سے عبداللہ بن محمد بن اسماء ابن اخی جویریہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا ‘ ان سے مالک نے بیان کیا ‘ ان سے زہری نے بیان کیا ‘ ان کو سعید بن مسیب اور ابوعبیدہ نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام پر رحم فرمائے کہ وہ زبردست رکن (یعنی اللہ تعالیٰ) کی پناہ لیتے تھے اور اگر میں اتنی مدت تک قید رہتا جتنی یوسف علیہ السلام رہے تھے اور پھر میرے پاس (بادشاہ کا آدمی) بلانے کے لیے آتا تو میں فوراً اس کے ساتھ چلا جاتا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3387  
3387. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ حضرت لوط ؑ پر رحم فرمائے کہ وہ ایک مضبوط سہارے کی پناہ لینا چاہتے تھے۔ اور اگرمیں اتنی مدت تک قید خانے میں رہتا جتنی دیرحضرت یوسف ؑ رہے تھے، پھر میرے پاس (رہائی کےلیے)کوئی بلانے والا آتا تو میں میں فوراً اس کی دعوت پر لبیک کہتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3387]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ حضرت یوسف ؑ کے صبرواستقلال کی تعریف بیان فرما رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی برات کا صاف شاہی اعلان ہوئے بغیر جیل خانہ چھوڑ نا پسند نہیں فرمایا۔
﴿قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ﴾ (یوسف: 33)
آیت سے بھی ان کے مقام رفعت و عظیم مرتبت کا اظہار ہوتا ہے۔
صلی اللہ علیه وسلم أجمعین۔
آمین۔
اللہ کے پیاروں کی یہی شان ہوتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3387   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3387  
3387. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ حضرت لوط ؑ پر رحم فرمائے کہ وہ ایک مضبوط سہارے کی پناہ لینا چاہتے تھے۔ اور اگرمیں اتنی مدت تک قید خانے میں رہتا جتنی دیرحضرت یوسف ؑ رہے تھے، پھر میرے پاس (رہائی کےلیے)کوئی بلانے والا آتا تو میں میں فوراً اس کی دعوت پر لبیک کہتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3387]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے سیدنایوسف ؑ کی تعریف فرمائی ہے کہ انھوں نے اپنی براءت کا صاف شاہی اعلان ہوئے بغیر جیل خانہ چھوڑنا پسند نہیں فرمایا۔
حضرت یوسف ؑ نے اللہ سے دعا کی تھی۔
اے میرےپروردگار! جس چیز کی طرف مجھے مصر کی عورتیں بلا رہی ہیں اس سے تو مجھے قید ہی پسند ہے (یوسف: 12۔
33)


حضرت یوسف ؑ نے جب خواب کی تعمیر اور اس سے بچنے کی تدبیر بتائی عزیز مصر عش عش کر اٹھا۔
کہنے لگا۔
ایسے شخص کو میرے پاس لایا جائے تاکہ میں اس کی زیارت سے فیض یاب ہو سکوں لیکن یوسف ؑ نے قیدسے باہرآنے سے انکار کر دیا، مقصد یہ تھا کہ جب تک اس جرم کی تحقیق نہ کی جائے اور پوری طرح میری بریت واضح نہ ہو جائے میں قید سے باہر آنے کو تیار نہیں ہوں کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ کسی ناواقف کے دل میں یہ شائبہ تک نہ رہے کہ شاید اس معاملے میں یوسف کا بھی کچھ قصور تھا۔

رسول اللہ ﷺ نے انکسار اور تواضع کے طور پر ایسا فرمایا۔
بصورت دیگر آپ تو عزم و استقلال کے پہاڑ تھے۔
۔
۔
صلی اللہ علیه وسلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3387