سلسله احاديث صحيحه
الاداب والاستئذان -- آداب اور اجازت طلب کرنا

غیرمسلموں کے سلام یا بددعاؤں کا جواب کیسے دیا جائے؟
حدیث نمبر: 2665
-" كان ناس يأتون رسول الله صلى الله عليه وسلم من اليهود، فيقولون السام عليك! فيقول: وعليكم. ففطنت بهم عائشة فسبتهم، (وفي رواية: قالت عائشة: بل عليكم السام والذام) فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مه يا عائشة! [لا تكوني فاحشة] فإن الله لا يحب الفحش ولا التفحش. قالت: فقلت: يا رسول الله إنهم يقولون كذا وكذا. فقال: أليس قد رددت عليهم؟ فأنزل الله عز وجل: * (وإذا جاؤك حيوك بما لم يحيك به الله) * إلى آخر الآية".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: یہودی لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر (‏‏‏‏ «السلام عليكم» کی بجائے) «اَلسَّامُ عَلَيكُم» (‏‏‏‏تم پر ہلاکت اور موت واقع ہو) کہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواباً فرماتے: «وعليكم» ‏‏‏‏ اور تم پر بھی ہو۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما ان کی (یہودیوں کی) یہ بات سمجھ گئیں اور انہیں برا بھلا کہا (‏‏‏‏اور ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا: بلکہ تم پر ہلاکت اور مذمت ہو)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ رہنے دو! ناپسندیدہ باتیں نہ کیا کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ بدگوئی اور بدزبانی کو ناپسند کرتا ہے۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ تو آپ کو یوں کہہ رہے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏کیا میں نے ان کو (‏‏‏‏اچھے انداز میں) جواب دے نہیں دیا۔ ‏‏‏‏پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: «وَإِذَا جَاءُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللَّهُ» ‏‏‏‏اور جب وہ تیرے پاس آتے ہیں تو تجھے ان لفظوں میں سلام کہتے ہیں جن لفظوں میں اللہ تعالیٰ نے نہیں کہا آیت کے آخر تک (‏‏‏‏سورۃ المجادلہ: ۸)