صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
28. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 3405
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَسَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسْمًا، فَقَالَ: رَجُلٌ إِنَّ هَذِهِ لَقِسْمَةٌ مَا أُرِيدَ بِهَا وَجْهُ اللَّهِ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ فَغَضِبَ حَتَّى رَأَيْتُ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ:" يَرْحَمُ اللَّهَ مُوسَى قَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے اعمش نے بیان کیا کہ میں نے ابووائل سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ وہ کہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مال تقسیم کیا ‘ ایک شخص نے کہا کہ یہ ایک ایسی تقسیم ہے جس میں اللہ کی رضا جوئی کا کوئی لحاظ نہیں کیا گیا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو اس کی خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوئے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر غصے کے آثار دیکھے۔ پھر فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے ‘ ان کو اس سے بھی زیادہ تکلیف دی گئی تھی مگر انہوں نے صبر کیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3405  
3405. حضرت عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے مال تقسیم کیا تو ایک شخص نے کہا کہ اس تقسیم سے اللہ کی رضا مقصود نہیں ہے۔ میں یہ سن کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور آپ کو بتایا تو آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ میں نے چہرہ انور پر غصے کے آثار دیکھے۔ پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ ؑ پر رحمت کرے! انھیں اس سے بھی زیادہ اذیت پہنچائی گئی، تاہم انھوں نے صبر سے کام لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3405]
حدیث حاشیہ:
کہنےوالا منافق تھا۔
آنحضرت ﷺ نےاس منافق کی بکواس پرصبر کیا اور اس بارے میں حضرت موسیٰ کا ذکر فرمایا۔
یہی باب سےوجہ مناسبت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3405   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3405  
3405. حضرت عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے مال تقسیم کیا تو ایک شخص نے کہا کہ اس تقسیم سے اللہ کی رضا مقصود نہیں ہے۔ میں یہ سن کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور آپ کو بتایا تو آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ میں نے چہرہ انور پر غصے کے آثار دیکھے۔ پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ ؑ پر رحمت کرے! انھیں اس سے بھی زیادہ اذیت پہنچائی گئی، تاہم انھوں نے صبر سے کام لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3405]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں ھذا کا اشارہ اس کلام کی طرف قراردیا تھا۔
ایسا قطعاً نہیں کہ موسیٰ ؑ نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ تکلیفیں اور دکھ درد برداشت کیے کیونکہ ایک حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مجھے اللہ تعالیٰ کی خاطر اس قدر تکالیف کا سامنا کرنا پڑا کہ اس قدر کسی دوسرے کو تکالیف کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
(سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث: 2222)

واضح رہے کہ ایذائے موسیٰ سے مراد حدیث غسل کی طرف اشارہ بھی ہوسکتا ہے بعض شارحین نے قارون کی شرارت کو ایذائے موسیٰ قراردیا ہے کہ اس نے ایک عورت کو تیار کیا جو لوگوں کے سامنے اس بات کا اقرار کرتی تھی حضرت موسیٰ ؑ نے مجھ سے بدکاری کی ہے۔
بہر حال مسلمانوں کو ہر اس کام سے بچنا چاہیے جو رسول اللہ ﷺ کی ایذارسانی کا باعث ہو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3405