صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
31. بَابُ وَفَاةِ مُوسَى، وَذِكْرُهُ بَعْدُ:
باب: موسیٰ علیہ السلام کی وفات اور ان کے بعد کے حالات کا بیان۔
قَالَ أَبُو الْعَالِيَةِ: الْعَوَانُ النَّصَفُ بَيْنَ الْبِكْرِ وَالْهَرِمَةِ فَاقِعٌ سورة البقرة آية 69 صَافٍ لا ذَلُولٌ سورة البقرة آية 71 لَمْ يُذِلَّهَا الْعَمَلُ تُثِيرُ الأَرْضَ سورة البقرة آية 71 لَيْسَتْ بِذَلُولٍ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَعْمَلُ فِي الْحَرْثِ مُسَلَّمَةٌ سورة البقرة آية 71 مِنَ الْعُيُوبِ لا شِيَةَ سورة البقرة آية 71 بَيَاضٌ صَفْرَاءُ سورة البقرة آية 69 إِنْ شِئْتَ سَوْدَاءُ وَيُقَالُ صَفْرَاءُ كَقَوْلِهِ جِمَالَتٌ صُفْرٌ سورة المرسلات آية 33 فَادَّارَأْتُمْ سورة البقرة آية 72 اخْتَلَفْتُمْ.
‏‏‏‏ ابوالعالیہ نے کہا کہ (قرآن مجید میں لفظ) «العوان» نوجوان اور بوڑھے کے درمیان کے معنی میں ہے۔ «فاقع‏» بمعنی صاف۔ «لا ذلول‏» یعنی جسے کام نے نڈھال اور لاغر نہ کر دیا ہو۔ «تثير الأرض‏» یعنی وہ اتنی کمزور نہ ہو کہ زمین نہ جوت سکے اور نہ کھیتی باڑی کے کام کی ہو۔ «مسلمة‏» یعنی صحیح سالم اور عیوب سے پاک ہو۔ «لا شية‏» یعنی داغی (نہ ہو)۔ «صفراء‏» اگر تم چاہو تو اس کے معنی سیاہ کے بھی ہو سکتے ہیں اور زرد کے بھی جیسے «جمالة صفر‏» میں ہے۔ «فادارأتم‏» بمعنی «فاختلفتم‏» تم نے اختلاف کیا۔ (مزید معلومات کے لیے ان مقامات قرآن کا مطالعہ ضروری ہے جہاں یہ الفاظ آئے ہیں۔)
حدیث نمبر: 3407
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلَام فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ، فَقَالَ: أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ، قَالَ: ارْجِعْ إِلَيْهِ فَقُلْ لَهُ يَضَعُ يَدَهُ عَلَى مَتْنِ ثَوْرٍ فَلَهُ بِمَا غَطَّتْ يَدُهُ بِكُلِّ شَعَرَةٍ سَنَةٌ، قَالَ: أَيْ رَبِّ ثُمَّ مَاذَا، قَالَ: ثُمَّ الْمَوْتُ، قَالَ: فَالْآنَ، قَالَ: فَسَأَلَ اللَّهَ أَنْ يُدْنِيَهُ مِنَ الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ رَمْيَةً بِحَجَرٍ، قَالَ: أَبُو هُرَيْرَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ كُنْتُ ثَمَّ لَأَرَيْتُكُمْ قَبْرَهُ إِلَى جَانِبِ الطَّرِيقِ تَحْتَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ"، قَالَ: وَأَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن طاؤس نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے پاس ملک الموت کو بھیجا۔ جب ملک الموت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے تو انہوں نے انہیں چانٹا مارا (کیونکہ وہ انسان کی صورت میں آیا تھا) ملک الموت ‘ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں واپس ہوئے اور عرض کیا کہ تو نے اپنے ایک ایسے بندے کے پاس مجھے بھیجا جو موت کے لیے تیار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دوبارہ ان کے پاس جاؤ اور کہو کہ اپنا ہاتھ کسی بیل کی پیٹھ پر رکھیں، ان کے ہاتھ میں جتنے بال اس کے آ جائیں ان میں سے ہر بال کے بدلے ایک سال کی عمر انہیں دی جائے گی (ملک الموت دوبارہ آئے اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ سنایا) موسیٰ علیہ السلام بولے: اے رب! پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر موت ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ پھر ابھی کیوں نہ آ جائے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ بیت المقدس سے مجھے اتنا قریب کر دیا جائے کہ (جہاں ان کی قبر ہو وہاں سے) اگر کوئی پتھر پھینکے تو وہ بیت المقدس تک پہنچ سکے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں وہاں موجود ہوتا تو بیت المقدس میں ‘ میں تمہیں ان کی قبر دکھاتا جو راستے کے کنارے پر ہے ‘ ریت کے سرخ ٹیلے سے نیچے۔ عبدالرزاق بن ہمام نے بیان کیا کہ ہمیں معمر نے خبر دی ‘ انہیں ہمام نے اور ان کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح بیان کیا۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1339  
´ملک الموت کا (انسانی شکل میں) موسیٰ علیہ السلام کے پاس آنا `
«... أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلَام، فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ ,فَقَالَ: أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ ...»
۔۔۔ ملک الموت (آدمی کی شکل میں) موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجے گئے۔ وہ جب آئے تو موسیٰ علیہ السلام نے (نہ پہچان کر) انہیں ایک زور کا طمانچہ مارا اور ان کی آنکھ پھوڑ ڈالی۔ وہ واپس اپنے رب کے حضور میں پہنچے اور عرض کیا کہ یا اللہ! تو نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا۔۔۔

تخریج الحدیث:
یہ روایت صحیح بخاری میں دو مقامات پر ہے [1339، 3407]
امام بخاری رحمہ اللہ کے علاوہ درج ذیل محدثین نے بھی اسے روایت کیا ہے۔
مسلم النیسابوری [صحيح مسلم: 2372 وترقيم دارالسلام: 6148، 6149]
النسائي [سنن النسائي 4؍118، 119 ح2091]
ابن حبان [صحيح ابن حبان، الاحسان 8؍38 ح6223، پرانا نسخه: ح6190]
ابن ابي عاصم [السنة: 599]
البيهقي فى الاسماء والصفات [ص492]
البغوي فى شرح السنة [265/5، 266 ح 451 او قال: هذا حدهث متفق على صحته]
الطبري فى التاريخ [434/1 دوسرا نسخه 505/1]
الحاكم فى المستدرك [578/2 ح 4107 و قال: هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه]
وابوعوانه فى مسنده [اتحاف المهرة 15؍104]
امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے درج ذیل محدثین نے اسے روایت کیا ہے:
أحمد بن حنبل [المسند 2؍269، 315، 533]
عبدالرزاق فى المصنف [11؍274، 375 ح20530، 20531]
همام بن منبه [الصحيفة: 60]
اس حدیث کو سیدنا الامام ابوہریرہ رضى اللہ عنہ سے درج ذیل تابعین نے بیان کیا ہے:
① همام بن منبه [البخاري: 3407 مختصراً، مسلم: 2372 وترقيم دارالسلام: 6149]
② طاؤس [البخاري: 1339، 3407 ومسلم: 2372 وترقيم دارالسلام: 6148]
③ عمار بن ابي عمار [أحمد 2؍533 ح10917 وسنده صحيح وصححه الحاكم على شرط مسلم 2؍578]
اس روايت كي دوسری سند کے لئے دیکھئے:
مسند أحمد [2؍351]
↰ معلوم ہوا کہ یہ روایت بالکل صحیح ہے، اسے بخاری، مسلم، ابن حبان، حاکم اور بغوی نے صحیح قرار دیا ہے۔

سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے پاس ملک الموت ایسی انسانی شکل میں آئے تھے جسے موسیٰ علیہ السلام نہیں پہچانتے تھے۔
◈ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وكان موسيٰ غيورًا، فرأي فى داره رجلاً لم يعرفه، فشال يده فلطمه، فأتت لطمته على فقءِ عينه التى فى الصورة التى يتصور بها، لا الصورة التى خلقه الله عليها»
اور موسیٰ (علیہ السلام) غیور تھے۔ پس انہوں نے اپنے گھر میں ایسا آدمی دیکھا جسے وہ پہچان نہ سکے تو ہاتھ بڑھا کر مکا مار دیا۔ یہ مکا اس (فرشتے) کی (انسانی صورت والی) اس آنکھ پر لگا جو اس نے اختیار کی تھی۔ جس (اصلی) صورت پر اللہ نے اسے پیدا کیا، اس پر یہ مکا نہیں لگا۔ إلخ [الاحسان، نسخه محققه 14؍115]
◈ امام بغوی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر تفصیلی بحث کی ہے جس سے حافظ ابن حبان کی تائید ہوتی ہے۔ [ديكهئے شرح السنة 5؍266۔ 268]
◈ اور فرمایا کہ: یہ مفہوم ابوسلیمان الخطابی نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے تاکہ ان بدعتی اور ملحد لوگوں پر رد ہو جو اس حدیث اور اس جیسی دوسری احادیث پر طعن کرتے ہیں، اللہ ان (گمراہوں) کو ہلاک کرے اور مسلمانوں کو ان کے شر سے بچائے۔ [شرح السنة 5؍268]
↰ مختصر یہ کہ موسیٰ علیہ السلام کو یہ پتا نہیں تھا کہ یہ فرشتہ ہے اور ان کی روح قبض کرنے کے لئے آیا ہے، لہٰذا انہوں نے اسے غیر آدمی سمجھ کر مارا۔ جب انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ فرشتہ ہے اور روح قبض کرنا چاہتا ہے تو لبیک کہا اور سر تسلیم خم کیا۔ پس یہ حدیث «وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّـهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللَّـهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ» [63-المنافقون:11] اللہ تعالیٰ ہرگز تاخیر نہیں کرتا جب کسی کی اجل آجائے۔ کے خلاف نہیں ہے۔ «والحمدلله»
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث/صفحہ نمبر: 12   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3407  
3407. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے پاس موت کا فرشتہ بھیجا گیا۔ جب وہ آپ کے ہاں آیا تو آپ نے اسے تھپڑ رسید کیا۔ فرشتہ اپنے رب کے پاس چلا گیا اورعرض کیا: اےاللہ! تو نے مجھے ایک ایسے بندے کی طرف بھیجا ہے جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم واپس اس کے پاس جاکر اسے کہو کہ وہ اپنا ہاتھ کسی بیل کی پشت پر رکھیں۔ ان کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آجائیں، ہربال کے بدلے ایک سال عمر انھیں دے دی جائے گی۔ انھوں(موسیٰ ؑ) نے عرض کیا: اے اللہ! پھر کیا ہوگا؟ فرمایا: پھر بھی موت ہوگی۔ عرض کیا: پھر ابھی کیوں نہ آجائے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ موسیٰ ؑ نے اللہ سے سوال کیا کہ انھیں بیت المقدس سے ایک پتھر پھینکنے کے برابر قریب کردے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر میں وہاں موجود ہوتا تو میں تمھیں ان کی قبر دکھاتا جوایک سرخ ٹیلے کے نیچے راستے کے ایک کنارے پر واقع ہے۔ راوی حدیث۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3407]
حدیث حاشیہ:
ملک الموت حضرت موسی ؑ کےپاس انسانی صورت میں آئے تھے۔
لہذا آ دمی جان کر آپ نے ان کوطمانچہ مارا، یہ چیز عقل سےبعید نہیں ہے۔
مگر منکرین حدیث کوبہانہ چاہیے۔
انہوں نے اس حدیث کوبھی تختہ مشق بنایا ہےجوسرا سران کی جہالت ہے۔
حضرت موسی ؑ کو حقیقت معلوم ہوئی تو انہوں نے اللہ تعالی کی ملاقات کےشوق میں موت ہی کو پسند کیا۔
ہمارے حضور ﷺ سے بھی آخر ت میں یہی کہاگیا تھا آپ نے بھی رفیق اعلی سےالحاق کےلیے دعا فرمائی جوقبول ہوئی۔
کہا گیا ہےکہ حضرت موسی ؑ نے خود بیت المقدس میں دفن ہونے کی دعا اس لیے نہیں فرمائی کہ آپ کوبنی اسرائیل کی طرف سےخطرہ تھاکہ وہ آپ کی قبر کوپوجنے لگ جائیں گےجیسا کہ مشرکین کاحال ہےکہ اپنے ابنیاء صلحاء کےمزارات کوعبادت گاہ بناتے چلے آرہے ہیں۔
ہمارے حضور ﷺ کوبھی کعبہ شریف سےڈھائی سومیل دورمدینہ طیبہ میں اللہ نے آرام گاہ نصیب فرمائی۔
اگر حضور ﷺ مکۃ المکرمہ میں دفن ہوتے توامت اسلامیہ کےجہال کی طرف سےبھی یہی خطرہ تھا۔
پھر بھی آنحضرت ﷺ نےدعا فرمائی کہ یااللہ! میری قبر کو وثن (بت)
نہ بنایو کہ لوگ یہاں آکر پوجا پاٹ شروع کردیں۔
الحمداللہ حضور ﷺ کی یہ دعا قبو ل ہوئی اور آج تک مسلمان نما مشرکوں کو وہاں آپ کی قبر کو پوجا کرنے کی ہمت نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3407   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3407  
3407. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کے پاس موت کا فرشتہ بھیجا گیا۔ جب وہ آپ کے ہاں آیا تو آپ نے اسے تھپڑ رسید کیا۔ فرشتہ اپنے رب کے پاس چلا گیا اورعرض کیا: اےاللہ! تو نے مجھے ایک ایسے بندے کی طرف بھیجا ہے جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تم واپس اس کے پاس جاکر اسے کہو کہ وہ اپنا ہاتھ کسی بیل کی پشت پر رکھیں۔ ان کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آجائیں، ہربال کے بدلے ایک سال عمر انھیں دے دی جائے گی۔ انھوں(موسیٰ ؑ) نے عرض کیا: اے اللہ! پھر کیا ہوگا؟ فرمایا: پھر بھی موت ہوگی۔ عرض کیا: پھر ابھی کیوں نہ آجائے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ موسیٰ ؑ نے اللہ سے سوال کیا کہ انھیں بیت المقدس سے ایک پتھر پھینکنے کے برابر قریب کردے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر میں وہاں موجود ہوتا تو میں تمھیں ان کی قبر دکھاتا جوایک سرخ ٹیلے کے نیچے راستے کے ایک کنارے پر واقع ہے۔ راوی حدیث۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3407]
حدیث حاشیہ:

حضرت موسیٰ ؑ کے پاس موت کا فرشتہ انسانی شکل میں حاضر ہوا تھا۔
انھوں نے یہ خیال کر کے کہ ایک آدمی میرے گھر میں اجازت کے بغیر گھس آیا ہے اسے تھپڑ مارا مسند احمد میں ہے کہ موسیٰ ؑ کے تھپڑ مارنے سے ملک الموت کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔
(مسند أحمد: 315/2)
شریعت نے ایسے آدمی کی آنکھ پھوڑدینے کی اجازت دی ہے جواجازت کے بغیرتانک جھانک کرتا ہے۔
(صحیح ابن حبان (الإحسان)
115/14)

امام لغوی نے بھی حافظ ابن حبان ؒ کی تائیدکی ہے۔
(شرح السنة: 265/5)
الغرض موسیٰ ؑ کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہ موت کا فرشتہ ہے اور ان کی روح قبض کرنے آیا ہے جب انھیں معلوم ہوا کہ یہ فرشتہ ہے روح قبض کرنا چاہتا ہےتو سر تسلیم خم کردیا۔

موسیٰ ؑ نے یہ خواہش ظاہر کی کہ مجھے ارض مقدسہ کے قریب دفن کیا جائے تاکہ ان کی قبر پوشیدہ رہے اور امت کے جاہل لوگ اس کی عبادت شروع نہ کردیں۔
یہ بھی احتمال ہے کہ بنی اسرائیل اپنی شراتوں کی وجہ سے بیت المقدس میں داخلے سے محروم کردیے گئےتھے وہ چالیس سال تک میدان تیہ میں گھومتے رہے حتی کہ ہارون ؑ کی وفات اسی میدان میں ہوئی۔
حضرت موسیٰ ؑ ایک سال بعد جب فوت ہونے لگے تو تمنا کا اظہار کیا:
اے اللہ! اگر داخلہ نہیں ہو سکا تو کم ازکم اس کا قرب ہی حاصل ہو جائے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3407