سلسله احاديث صحيحه
المناقب والمثالب -- فضائل و مناقب اور معائب و نقائص

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب
حدیث نمبر: 3264
- (إيه يا ابن الخطّاب! والذي نفسي بيده! ما لَقِيكَ الشيطانُ سالكاً فجّاً؛ إلا سلك فجّاً غير فجك).
محمد بن سعد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی، اس وقت آپ کے پاس قریشی عورتیں بیٹھی تھیں، وہ آپ سے سوال کر رہی تھیں، کثرت کا مطالبہ کر رہی تھیں اور بلند آواز میں (‏‏‏‏ اپنے مطالبات کا) اظہار کر رہی تھیں۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت لی تو انھوں نے جلدی جلدی پردہ کر لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اجازت دی، جب وہ داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس رہے تھے۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اور اللہ تعالیٰ آپ کو ہنساتا رہے (‏‏‏‏بھلا مسکرانے کی وجہ کیا ہے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ان عورتوں پر بڑا تعجب ہو رہا ہے، یہ میرے پاس بیٹھی تھیں، جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو جلدی جلدی پردہ کر لیا۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ آپ سے ڈرا جائے۔ پھر وہ ان عورتوں پر متوجہ ہوئے اور کہا: اپنے نفسوں کے دشمنو! کیا تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتی؟ انہوں نے کہا: تم رسول اللہ کی بہ نسبت زیادہ سخت رو ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن خطاب! بس کرو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب شیطان تجھے کسی گلی میں چلتے دیکھتا ہے تو وہ (‏‏‏‏تجھ سے خوفزدہ ہو کر) دوسری گلی میں چلا جاتا ہے۔