سلسله احاديث صحيحه
المناقب والمثالب -- فضائل و مناقب اور معائب و نقائص

سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی کرامت
حدیث نمبر: 3442
-" بعثني إلى [قومي] (باهلة)، [فانتهيت إليهم وأنا طاو]، فأتيت وهم على الطعام، (وفي رواية: يأكلون دما)، فرجعوا بي وأكرموني، [قالوا: مرحبا بالصدي بن عجلان، قالوا: بلغنا أنك صبوت إلى هذا الرجل. قلت: لا ولكن آمنت بالله وبرسوله، وبعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إليكم أعرض عليكم الإسلام وشرائعه] وقالوا: تعال كل. فقلت: [ويحكم إنما] جئت لأنهاكم عن هذا، وأنا رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم أتيتكم لتؤمنوا به، [فجعلت أدعوهم إلى الإسلام]، فكذبوني وزبروني، [فقلت لهم: ويحكم ائتوني بشيء من ماء فإني شديد العطش. قال: وعلي عمامتي، قالوا: لا ولكن ندعك تموت عطشا!]، فانطلقت وأنا جائع ظمآن قد نزل بي جهد شديد. [قال: فاغتممت، وضربت رأسي في العمامة] فنمت [في الرمضاء في حر شديد] فأتيت في منامي بشربة من لبن [لم ير الناس ألذ منه، فأمكنني منها]، فشربت ورويت وعظم بطني. فقال القوم: أتاكم رجل من خياركم وأشرافكم فرددتموه، فاذهبوا إليه فأطعموه من الطعام والشراب ما يشتهي. فأتوني بطعام! قلت: لا حاجة لي في طعامكم وشرابكم، فإن الله قد أطعمني وسقاني، فانظروا إلى الحال التي أنا عليها، [فأريتهم بطني]، فنظروا، فآمنوا بي وبما جئت به من عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، [فأسلموا عن آخرهم]".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے میری قوم ‏‏‏‏باہلہ ‏‏‏‏کی طرف (‏‏‏‏ ‏‏‏‏بحیثیت مبلغ) بھیجا، جب میں ان کے پاس پہنچا تو بھوکا تھا اور وہ اس وقت کھانا کھا رہے تھے، (‏‏‏‏ایک روایت میں ہے کہ خون کھا رہے تھے)۔ وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور میری عزت و آبرو کی، انہوں نے کہا: صدی بن عجلان کو خوش آمدید۔ انہوں نے کہا: ہمیں یہ خبر موصول ہوئی ہے کہ تم اس آدمی (‏‏‏‏محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف مائل ہو گئے ہو (‏‏‏‏کیا بات اسی طرح ہے)؟ میں نے کہا: نہیں نہیں۔ میں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لایا ہوں اور اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (‏‏‏‏ قاصد بنا کر) بھیجا ہے تاکہ تم پر اسلام اور اس کے شرعی قوانین پیش کروں۔ انہوں نے کہا: آؤ کھانا کھاؤ۔ میں نے کہا: تمہارا ستیاناس ہو، میں تو تمہیں اس (‏‏‏‏قسم کے کھانوں سے) منع کرنے کے لیے آیا ہوں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں، میں تمہارے پاس آیا ہوں تاکہ تم لوگ مومن بن جاؤ۔ میں انہیں دعوت اسلام دیتا رہا اور وہ مجھے جھٹلاتے اور جھڑکتے رہے۔ میں نے انہیں کہا: تمہارا ناس ہو، میں سخت پیاسا ہوں، پانی تو پلاؤ، اس وقت میرے پاس ایک پگڑی بھی رکھی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا: نہیں۔ ہم تجھے یوں ہی چھوڑے رکھیں گے، حتیٰ کہ تو مر جائے گا۔ میں سخت بھوک اور پیاس کی حالت میں وہاں سے چل دیا، میں اس وقت بری طرح تھک ہار چکا تھا اور دم گھٹ رہا تھا، میں نے اپنا سر پگڑی میں دیا اور گرمی کی شدت میں تپتی ہوئی زمین پر سو گیا، خواب میں میرے پاس دودھ لایا گیا (‏‏‏‏اور اتنا لذیذ کہ) لوگوں نے اس جیسا لذت والا دودھ نہیں دیکھا ہو گا، مجھے اس کو پینے کا موقع دیا گیا، میں نے پیا اور سیراب ہو گیا اور میرا پیٹ بڑا ہو گیا۔ لوگوں نے کہا: تمہارے پاس ایک اعلی و اشرف آدمی آیا تھا، لیکن تم نے (‏‏‏‏اس کی کوئی عزت نہیں کی) اور اسے دھتکار دیا، جاؤ اور اسے اس کی چاہت کے مطابق کھانا کھلاؤ اور مشروب پلاؤ۔ وہ میرے پاس کھانا لائے، لیکن میں نے کہا: مجھے تمہارے کھانے پینے کی کوئی ضرورت نہیں، اللہ تعالیٰ نے مجھے کھلایا بھی ہے اور پلایا بھی ہے۔ یہ میرا وجود دیکھ لو۔ پھر میں نے ان کو اپنا (‏‏‏‏سیر و سیراب) پیٹ دکھایا، جب انہوں نے یہ (‏‏‏‏کرامت) صورتحال دیکھی تو وہ مجھ پر اور جو کچھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لایا تھا، اس پر ایمان لے آئے اور سارے کے سارے مسلمان ہو گئے۔