صحيح البخاري
كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ -- کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
54. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 3470
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" كَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ إِنْسَانًا ثُمَّ خَرَجَ يَسْأَلُ فَأَتَى رَاهِبًا فَسَأَلَهُ، فَقَالَ لَهُ: هَلْ مِنْ تَوْبَةٍ؟، قَالَ: لَا، فَقَتَلَهُ فَجَعَلَ يَسْأَلُ، فَقَالَ لَهُ: رَجُلٌ ائْتِ قَرْيَةَ كَذَا وَكَذَا فَأَدْرَكَهُ الْمَوْتُ فَنَاءَ بِصَدْرِهِ نَحْوَهَا فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِكَةُ الْعَذَابِ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى هَذِهِ أَنْ تَقَرَّبِي، وَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى هَذِهِ أَنْ تَبَاعَدِي، وَقَالَ: قِيسُوا مَا بَيْنَهُمَا فَوُجِدَ إِلَى هَذِهِ أَقْرَبَ بِشِبْرٍ فَغُفِرَ لَهُ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا کہا ہم سے محمد بن ابی عدی نے بیان کیا ان سے شعبہ نے ان سے قتادہ نے ان سے ابوصدیق ناجی بکر بن قیس نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے خون ناحق کئے تھے پھر وہ نادم ہو کر) مسئلہ پوچھنے نکلا۔ وہ ایک درویش کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کیا اس گناہ سے توبہ قبول ہونے کی کوئی صورت ہے؟ درویش نے جواب دیا کہ نہیں۔ یہ سن کر اس نے اس درویش کو بھی قتل کر دیا (اور سو خون پورے کر دئیے) پھر وہ (دوسروں سے) پوچھنے لگا۔ آخر اس کو ایک درویش نے بتایا کہ فلاں بستی میں چلا جا) (وہ آدھے راستے بھی نہیں پہنچا تھا کہ) اس کی موت واقع ہو گئی۔ مرتے مرتے اس نے اپنا سینہ اس بستی کی طرف جھکا دیا۔ آخر رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں باہم جھگڑا ہوا۔ (کہ کون اسے لے جائے) لیکن اللہ تعالیٰ نے اس نصرہ نامی بستی کو (جہاں وہ توبہ کے لیے جا رہا تھا) حکم دیا کہ اس کی نعش سے قریب ہو جائے اور دوسری بستی کو (جہاں سے وہ نکلا تھا) حکم دیا کہ اس کی نعش سے دور ہو جا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ اب دونوں کا فاصلہ دیکھو اور (جب ناپا تو) اس بستی کو (جہاں وہ توبہ کے لیے جا رہا تھا) ایک بالشت نعش سے نزدیک پایا اس لیے وہ بخش دیا گیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3470  
3470. حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: بنی اسرائیل کا ایک شخص تھا جس نے ننانوے قتل کیے تھے۔ پھر وہ مسئلہ پوچھنے نکلا تو پہلے ایک درویش کے پاس گیا اور اس سے کہا: کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ درویش نے کہا: نہیں! تو اس نے اسے بھی قتل کردیا۔ پھر مسئلہ پوچھنے نکلا تو اس سے کسی نے کہا کہ تو فلاں بستی میں چلا جا، لیکن راستے ہی میں اسے موت نے آلیا تو مرتے وقت اس نے اپنا سینہ اس بستی کی طرف کر دیا۔ اب اس کے پاس رحمت اور عذاب کے دونوں فرشتے آئے اور جھگڑنے لگے اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو حکم دیا کہ اس شخص کے قریب ہو جا اور اس بستی کو جہاں سے وہ نکلا تھا یہ حکم دیا کہ اس سے دور ہو جا۔ پھر فرشتوں سے فرمایا کہ تم دونوں بستیوں کا درمیانی فاصلہ ناپ لوتو وہ اس بستی سے بالشت بھر قریب نکلا جہاں تو بہ کرنے جا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3470]
حدیث حاشیہ:
ہم سے محمدبن بشار نےبیان کیا، ہم سے محمدبن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے،ان سے قتادہ نے،ان سے ابوصدیق ناجی بکربن قیس نے اورا ن سے ابوسعید خدری نےکہ نبی کریم ﷺ نےفرمایا بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا (نام نامعلوم)
جس نے ننانوے خون ناحق کئے تھے پھر و ہ(نادم ہوا)
مسئلہ پوچھنے نکلا۔
وہ ایک درویش کےپاس آیا اوراس سے پوچھا،کیا اس گناہ سےتوبہ قبول ہونے کی کوئی صورت ہے؟ درویش نے جواب دیا کہ نہیں۔
یہ سن کر اس نےاس درویش کوبھی قتل کردیا(اورسوخون پورے کردئیے)
پھر وہ (دوسروں سے)
پوچھنے لگا۔
آخر اس کوایک درویش نےبتایا کہ فلاں بستی میں چلا جا(وہ آدھے راستے بھی نہیں پہنچا تھاکہ)
اس کومت واقع ہوگئی۔
مرتےمرتے اس نے اپناسینہ اس پستی کی طرف جھکادیا۔
آخر رحمت کےفرشتوں اورعذاب کے فرشتوں میں باہم جھگڑا ہوا۔
(کہ کون اسے لے جائے)
لیکن اللہ تعالیٰ نے اس نصرہ نامی بستی کو(جہاں وہ توبہ کےلیے جارہاتھا)
حکم دیا کہ وہ اس کی نعش سےقریب ہو جائے اوردوسری بستی کو(جہاں سے وہ نکلای تھا)
حکم دیا کہ اس کی نعش شےدور ہوجا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سےفرمایا کہ اب دونوں کافاصلہ دیکھوں اور(جب ناپا تو)
اس بستی کو(جہاں سے وہ توبہ کےلیے جارہا تھا)
ایک بالشت نعش سےنزدیک پایا اس لیے وہ بخش دیاگیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3470   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3470  
3470. حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: بنی اسرائیل کا ایک شخص تھا جس نے ننانوے قتل کیے تھے۔ پھر وہ مسئلہ پوچھنے نکلا تو پہلے ایک درویش کے پاس گیا اور اس سے کہا: کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ درویش نے کہا: نہیں! تو اس نے اسے بھی قتل کردیا۔ پھر مسئلہ پوچھنے نکلا تو اس سے کسی نے کہا کہ تو فلاں بستی میں چلا جا، لیکن راستے ہی میں اسے موت نے آلیا تو مرتے وقت اس نے اپنا سینہ اس بستی کی طرف کر دیا۔ اب اس کے پاس رحمت اور عذاب کے دونوں فرشتے آئے اور جھگڑنے لگے اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو حکم دیا کہ اس شخص کے قریب ہو جا اور اس بستی کو جہاں سے وہ نکلا تھا یہ حکم دیا کہ اس سے دور ہو جا۔ پھر فرشتوں سے فرمایا کہ تم دونوں بستیوں کا درمیانی فاصلہ ناپ لوتو وہ اس بستی سے بالشت بھر قریب نکلا جہاں تو بہ کرنے جا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3470]
حدیث حاشیہ:

لفظ راہب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت عیسیٰ ؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد کا ہے کیونکہ رہبانیت کی ابتدا ان لوگوں سے ہوئی جو حضرت عیسیٰ ؑ کے پیروکار تھے۔

بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی توبہ کے نتیجے میں تمام گناہ معاف کر دیے حتی کہ وہ گناہ بھی جو حقوق العباد سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اس شخص سے راضی ہو گیا تو وہ لوگ بھی اس سے راضی ہو جائیں گے جن کے حقوق اس نے غصب کر رکھے تھے۔
اللہ تعالیٰ حق داروں کو خود اپنی طرف سے اچھا بدلہ دے کر انھیں راضی کردے گا چنانچہ ایک حدیث میں ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے یوم عرفہ کے پچھلے وقت اپنی امت کی بخشش کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے شرف قبولیت سے نوازا اور فرمایا کہ میں نے حقوق العبادکے علاوہ ان کے سب گناہ معاف کردیے۔
وہ حق ظالم سے لے کر مظلوم کو ضرور دوں گا۔
آپ نے اللہ تعالیٰ سے دوبارہ عرض کی اے اللہ! اگر تو چاہے تو مظلوم کو جنت سے کچھ حصہ دے کرراضی کردے اور ظالم کو معاف کردے۔
لیکن اس وقت آپ کی یہ دعا قبول نہ ہوئی بالآخر صبح کے وقت آپ نے مزدلفہ پہنچ کر پھر اس دعا کو دہرایا تو اللہ تعالیٰ نے اسے قبول کر لیا یعنی حقوق العباد بھی معاف کردینے کا وعدہ فرمایا۔
(سنن ابن ماجة، المناسك، حدیث: 3013)
لیکن علامہ البانی ؒ نے اس حدیث کوضعیف قراردیا ہے۔
(ضعیف سنن ابن ماجة، حدیث: 651)

بہر حال کبیرہ گناہ معاف ہونے کی چند شرائط ہیں۔
(ا)
کبیرہ جرائم کو حلال سمجھ کر نہ کیا جائے۔
(ب)
وہ بکثرت نیکیاں کرے۔
(ج)
ان مواقع کو چھوڑدے جہاں جہاں اس نے گناہوں کا ارتکاب کیا تھا تاکہ اس جدائی اور علیحدگی سے اس کی توبہ پکی ہو جائے بہر حال اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل لی جو قاتل مومن کی توبہ کے متعلق یہ موقف رکھتے ہیں کہ وہ قبول کی جائے گی۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3470