سلسله احاديث صحيحه
المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات -- ابتدائے (مخلوقات)، انبیا و رسل، عجائبات خلائق

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپنے میں شقِّ بطن کا واقعہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام فرزندان امت سے بھاری ہیں
حدیث نمبر: 3789
-" كانت حاضنتي من بني سعد بن بكر، فانطلقت أنا وابن لها في بهم لنا ولم نأخذ معنا زادا، فقلت:" يا أخي اذهب فأتنا بزاد من عند أمنا، فانطلق أخي ومكثت عند البهم، فأقبل طائران أبيضان كأنهما نسران فقال أحدهما لصاحبه: أهو هو؟ قالا الآخر: نعم، فأقبلا يبتدراني فأخذاني فبطحاني للقفا فشقا بطني، ثم استخرجا قلبي فشقاه فأخرجا منه علقتين سوداوين، فقال أحدهما لصاحبه: ائتني بماء ثلج، فغسل به جوفي، ثم قال: ائتني بماء برد، فغسل به قلبي، ثم قال: ائتني بالسكينة، فذره في قلبي، ثم قال أحدهما لصحابه: حصه، فحاصه وختم عليه بخاتم النبوة، ثم قال أحدهما لصاحبه: اجعله في كفة، واجعل ألفا من أمته في كفة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فإذا أنا أنظر إلى الألف فوقي أشفق أن يخر علي بعضهم، فقال: لو أن أمته وزنت به لمال بهم، ثم انطلقا وتركاني قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وفرقت فرقا شديدا ثم انطلقت إلى أمي فأخبرتها، بالذي لقيت، فأشفقت أن يكون قد التبس بي، فقالت: أعيذك بالله، فرحلت بعيرا لها فجعلتني على الرحل وركبت خلفي حتى بلغنا إلى أمي فقالت: أديت أمانتي وذمتي، وحدثتها بالذي لقيت فلم يرعها ذلك وقالت: إني رأيت خرج مني نورا أضاءت منه قصور الشام".
سیدنا عتبہ بن عبد سلمی رضی اللہ عنہ، جو اصحاب رسول میں سے تھے، نے ہمیں بیان کیا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کے نبوی معاملے کی ابتداء کیسے ہوئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری دایہ کا تعلق بنو سعد بن بکر قبیلے سے تھا، میں اور اس کا بیٹا بھیڑ بکریاں چرانے کے لیے باہر چلےگئے اور اپنے ساتھ زاد راہ نہ لیا۔ میں نے کہا: میرے بھائی! جاؤ اور اپنی ماں سے اشیاء خوردنی لے آؤ۔ پس میرا بھائی چلا گیا اور میں بکریوں کے پاس ٹھہرا رہا۔ (‏‏‏‏میں کیا دیکھتا ہوں کہ) گدھ کی طرح کے دو سفید پرندے متوجہ ہوئے، ایک نے دوسرے سے کہا: کیا یہ آدمی وہی ہے؟ دوسرے نے کہا: جی ہاں۔ پھر وہ لپکتے ہوئے میری طرف متوجہ ہوئے، مجھے پکڑا اور گدّی کے بل لٹا دیا، میرا پیٹ چاک کیا، میرا دل نکالا اور اسے چیرا دیا، اس سے گاڑھے خون کے دو سیاہ ٹکڑے نکالے۔ پھر ایک نے دوسر ے سے کہا: برف والا پانی لاؤ۔ پس اس نے اس پانی سے میرا پبٹ دھویا، پھر کہا: اولوں والا پانی لاؤ۔ اس سے اس نے میرا دل دھویا اور پھر کہا: سکینت لاؤ۔ اس (‏‏‏‏اطمنان و سکون) کو میرے دل میں چھڑک دیا۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا: ٹانکے لگا دو۔ پس اس نے ٹانکے لگا دیے اور اس پر مہر نبوت ثبت کر دی۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا: اس (‏‏‏‏محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کو (‏‏‏‏ترازو کے) ایک پلڑے میں اور دوسرے میں اس کی امت کے ہزار افراد رکھو۔‏‏‏‏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (‏‏‏‏جب انہوں نے وزن کرنے کے لیے ترازو اٹھایا تو) میں نے دیکھا کہ وہ ہزار آدمی (‏‏‏‏میرے مقابلے میں کم وزن ہونے کی وجہ سے) اتنے اوپر اٹھ گئے کہ مجھے یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مجھ پر گر پڑیں۔ پھر اس نے کہا: اگر ان کا وزن ان کی پوری امت سے کیا جائے تو یہ (‏‏‏‏ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) وزنی ثابت ہوں گے، پھر وہ چلےگئے اور مجھے چھوڑ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس وقت میں بہت زیادہ گھبرا گیا اپنی دایہ کے پاس پہنچا اور سارا واقعہ اسے سنا دیا، اسے یہ اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں آپ کی عقل میں کوئی فتور نہ آ گیا ہو۔ اس نے کہا: میں تجھے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں دیتی ہوں۔ پھر اس نے اونٹ پر کجاوہ رکھا، مجھے کجاوے پر بٹھایا اور خود میرے پیچھے سوار ہو گئی اور مجھے میری ماں (‏‏‏‏آمنہ) کے پاس پہنچا دیا اور میری ماں کو کہا: میں نے اپنی امانت اور ذمہ داری ادا کر دی ہے، پھر اسے وہ سارا واقعہ سنا دیا، جو مجھے پیش آیا تھا۔ لیکن (‏‏‏‏یہ ماجرا) میری ماں کو نہ گھبرا سکا، بلکہ انہوں نے کہا: جب یہ بچہ (‏‏‏‏میرے بطن سے) پیدا ہوا تھا تو میں نے ایک نور دیکھا تھا، جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے تھے۔