صحيح البخاري
كِتَاب الْمَنَاقِبِ -- کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
9. بَابُ قِصَّةُ خُزَاعَةَ:
باب: قبیلہ خزاعہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 3521
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، قَالَ الْبَحِيرَةُ: الَّتِي يُمْنَعُ دَرُّهَا لِلطَّوَاغِيتِ وَلَا يَحْلُبُهَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ، وَالسَّائِبَةُ: الَّتِي كَانُوا يُسَيِّبُونَهَا لِآلِهَتِهِمْ فَلَا يُحْمَلُ عَلَيْهَا شَيْءٌ، قَالَ: وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رَأَيْتُ عَمْرَو بْنَ عَامِرِ بْنِ لُحَيٍّ الْخُزَاعِيَّ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ سَيَّبَ السَّوَائِبَ".
ہم سے ابولیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہوں نے سعید بن مسیب سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ «بحيرة» وہ اونٹنی جس کے دودھ کی ممانعت ہوتی تھی۔ کیونکہ وہ بتوں کے لیے وقف ہوتی تھی۔ اس لیے کوئی بھی شخص اس کا دودھ نہیں دوھتا تھا اور «سائبة» اسے کہتے جس کو وہ اپنے معبودوں کے لیے چھوڑ دیتے اور ان پر کوئی بوجھ نہ لادتا اور نہ کوئی سواری کرتا۔ انہوں نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے عمرو بن عامر بن لحیی خزاعی کو دیکھا کہ جہنم میں وہ اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہا تھا اور یہی عمرو وہ پہلا شخص ہے جس نے «سائبة» کی رسم نکالی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3521  
3521. حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ بحیرہ وہ اونٹنی ہے جس کا دودھ بتوں کے لیے روکا جاتا اور وہ بتوں کے لیے وقف ہوتی، اس لیے اس کا دودھ کوئی شخص نہیں دوہتا تھا۔ سائبہ وہ اونٹنی ہے جسے وہ اپنے معبودوں کے لیے وقف کرتے، اس پر کوئی بوجھ نہ لادا جاتا اور نہ کوئی اس پر سواری ہی کرتا۔ انھوں نے حضرت ابوہریرہ ؓسے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں نے عمروبن عامر بن لحی خزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہا تھا۔ یہی وہ پہلا شخص ہے جس نے عرب میں سائبہ کی رسم کو ایجاد کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3521]
حدیث حاشیہ:
جاہل مسلمانوں میں ایسی بد رسمیں آج بھی مروج ہیں کہ اپنے نام نہاد پیروں اور مرشدوں کے نام پر جانور چھوڑ دیتے ہیں جیسے خواجہ کا بکرا۔
بڑے پیر کے نام کی دیگ۔
پھر ان کے لیے ایسے ہی خاص رسوم مروج ہیں کہ ان کو فلاں کھائے اور فلاں نہ کھائے، یہ سب جہالت اور ضلالت کی باتیں ہیں۔
اللہ پاک ایسے نام نہاد مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے کہ وہ کفار کی اس تقلید سے باز آئیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3521   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3521  
3521. حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ بحیرہ وہ اونٹنی ہے جس کا دودھ بتوں کے لیے روکا جاتا اور وہ بتوں کے لیے وقف ہوتی، اس لیے اس کا دودھ کوئی شخص نہیں دوہتا تھا۔ سائبہ وہ اونٹنی ہے جسے وہ اپنے معبودوں کے لیے وقف کرتے، اس پر کوئی بوجھ نہ لادا جاتا اور نہ کوئی اس پر سواری ہی کرتا۔ انھوں نے حضرت ابوہریرہ ؓسے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں نے عمروبن عامر بن لحی خزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہا تھا۔ یہی وہ پہلا شخص ہے جس نے عرب میں سائبہ کی رسم کو ایجاد کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3521]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں چند ایسے جانوروں کا ذکر ہے جنھیں مشرک اپنے معبودان باطلہ کی تعظیم کے لیے چھوڑدیتے تھے اور انھیں اپنے لیے حرام کرلیتے تھے۔
قرآن کریم نے اس رسمِ بد کی خوب تردید کی ہے۔
(المائدة:
/103/5)

ہمارے ہاں بھی اس طرح کی بدرسمیں رائج ہیں۔
لوگ اپنے نام نہاد پیروں کے نام پر جانور چھوڑدیتے ہیں کہ یہ خواجہ کا بکرا ہے اور یہ جھولے لعل کی گائیں ہیں، یہ بڑے پیر کی دیگ ہے۔
جب گیارہویں آتی ہے تو لوگ بھینسوں کا دودھ فروخت نہیں کرتے بلکہ بڑے پیر جیلانی کے نام وقف کردیتے ہیں۔
یہ سب جہالت وضلالت اورگمراہی کی باتیں ہیں، اسلام کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اللہ ہمیں سیدھے راستے پر قائم رکھے اور ایسے شرکیہ امور سے بچائے۔
آمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3521