صحيح البخاري
كِتَاب الْمَنَاقِبِ -- کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
20. بَابُ كُنْيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3537
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السُّوقِ، فَقَالَ: رَجُلٌ يَا أَبَا الْقَاسِمِ فَالْتَفَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" سَمُّوا بِاسْمِي، وَلَا تَكْتَنُوا بِكُنْيَتِي".
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں تھے کہ ایک صاحب کی آواز آئی۔ یا اباالقاسم! آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے (معلوم ہوا کہ انہوں نے کسی اور کو پکارا ہے) اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے نام پر نام رکھو لیکن میری کنیت مت رکھو۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3737  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اور کنیت ایک ساتھ رکھنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقبرہ بقیع میں تھے کہ ایک شخص نے دوسرے کو آواز دی: اے ابوالقاسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی جانب متوجہ ہوئے، تو اس نے عرض کیا کہ میں نے آپ کو مخاطب نہیں کیا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ میرے نام پر نام رکھو، لیکن میری کنیت پر کنیت نہ رکھو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3737]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  بقیع مدینہ منورہ کے قریب ایک میدان تھا جس کے ایک حصے میں قبرستان تھا جبکہ باقی میدان میں خرید و فروخت ہوتی تھی۔
آج کل اس میدان میں اہل مدینہ کا قبرستان ہے جسے عرف عام میں جنت البقیعکہا جاتا ہے۔
اس واقعہ کی ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
نبی ﷺ بازار میں تھے کہ ایک آدمی بولا:
اے ابوالقاسم!۔
۔
۔
۔
۔ (صحيح البخاري، المناقب، باب كنية النبى ﷺ، حديث: 3537)

(2)
کنیت سے مراد وہ نام ہے جو اولاد کی نسبت سے ابو یا ام کے ساتھ رکھا جائے، مثلاً:
ابو بکر ؓ اور ام عبداللہ (عائشہ صدیقہ ؓ)

(3)
اس مسئلے میں مختلف اقوال ہیں:
امام ابن ماجہ ؒ نے باب کا جو عنوان تحریر کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی رائے یہ ہے کہ جس شخص کا نام محمد ہو، وہ ابوالقاسم کنیت نہ رکھے۔
دوسرا آدمی یہ کنیت رکھ سکتا ہے۔
بعض علماء کی رائے ہے کہ یہ ممانعت صرف نبی ﷺ کی زندگی میں تھی جیسا کہ زیر مطالعہ حدیث سے بھی بطاہر یہی معلوم ہوتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3737