صحيح البخاري
كِتَاب الْمَنَاقِبِ -- کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
23. بَابُ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ اور اخلاق فاضلہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 3551
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" مَرْبُوعًا بَعِيدَ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ لَهُ شَعَرٌ يَبْلُغُ شَحْمَةَ أُذُنِهِ رَأَيْتُهُ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ، لَمْ أَرَ شَيْئًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ، قَالَ: يُوسُفُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِيهِ إِلَى مَنْكِبَيْهِ".
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحٰق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درمیانہ قد کے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ بہت کشادہ اور کھلا ہوا تھا۔ آپ کے (سر کے) بال کانوں کی لو تک لٹکتے رہتے تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مرتبہ ایک سرخ جوڑے میں دیکھا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر حسین کسی کو نہیں دیکھا تھا۔ یوسف بن ابی اسحٰق نے اپنے والد کے واسطہ سے «إلى منكبيه‏.‏» بیان کیا (بجائے لفظ «شحمة أذنه») یعنی آپ کے بال مونڈھوں تک پہنچتے تھے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3599  
´مردوں کے سرخ لباس پہننے کا بیان۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت بال جھاڑے اور سنوارے ہوئے سرخ جوڑے میں ملبوس کسی کو نہیں دیکھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3599]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امام ابن قیم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
حلھ کا مطلب تہبند اور اوڑھنے والی چادر ہے اور حلھ کا لفظ ان دونوں کے مجموعے پر بولا جاتا ہے۔
یہ سمجھنا غلط فہمی ہے کہ یہ جوڑا خالص سرخ رنگ کا تھا اورا س میں دوسرا رنگ شامل نہیں تھا۔
سرخ حلے سے مراد یمن کی دو چادریں ہوتی ہیں جو سرخ اور سیاہ دھاریوں کی صورت میں بنی ہوتی ہیں جس طرح یمن کی دوسری چادریں (لکیر دار)
ہوتی ہیں۔
یہ لباس اس نام (سرخ حلہ)
سے ان سرخ دھاریوں کی وجہ سے مشہور ہے ورنہ خالص سرخ (لباس)
سے تو سختی سے منع کیا گیا ہے البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے (صحیح البخاري، کتاب الصلاة، باب الصلاۃ فی الثوب الأحمر حدیث: 376)
میں ذکر کردہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے:
امام بخاری رحمہ اللہ اس عنوان کے ذریعے سے (سرخ کپڑا پہننے کے)
جواز کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں۔
گویا خالص سرخ رنگ کا جوڑا پہننا بھی مردوں کے لئے جائز ہے لیکن اگر کسی علاقے میں یہ رنگ عورتوں کے لئے مخصوص ہو چکا ہو تو پھر اس علاقے میں مردوں کے لئے اس سے اجتناب بہتر ہوگا کیونکہ عورتوں کی مشابہت اختیار کرنا بھی ممنوع ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3599   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1724  
´مردوں کے لیے سرخ کپڑا پہننے کے جواز کا بیان۔`
براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سرخ جوڑے میں کسی لمبے بال والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوبصورت نہیں دیکھا، آپ کے بال شانوں کو چھوتے تھے، آپ کے شانوں کے درمیان دوری تھی، آپ نہ کوتاہ قد تھے اور نہ لمبے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1724]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
سرخ لباس کی بابت حالات و ظروف کی رعایت ضروری ہے،
اگر یہ عورتوں کا مخصوص زیب وزینت والا لباس ہے جیسا کہ آج کے اس دور میں شادی کے موقع پر سرخ جوڑا دلہن کو خاص طور سے دیا جاتا ہے تو مردوں کا اس سے بچنا بہتر ہے،
خود نبی اکرم ﷺ کے اس سرخ جوڑے کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کیسا تھا؟ خلاصہ اقوال یہ ہے کہ یہ سرخ جوڑا یا دیگر لال لباس جو آپ ﷺ پہنے تھے،
ان میں تانا اور بانا میں رنگوں کا اختلاف تھا،
بالکل خالص لال رنگ کے وہ جوڑے نہیں تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1724   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4072  
´لال رنگ کا استعمال جائز ہے۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال آپ کے دونوں کانوں کی لو تک پہنچتے تھے، میں نے آپ کو ایک سرخ جوڑے میں دیکھا اس سے زیادہ خوبصورت میں نے کوئی چیز کبھی نہیں دیکھی۔ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4072]
فوائد ومسائل:
نیچے آنے والی حدیث میں وضاحت ہے کہ آپ کا یہ سرخ جوڑا خالص سرخ رنگ کا تعلق نہیں تھا، بلکہ اس میں سرخ رنگ کی دھاریاں تھیں جسے برد کہا جاتا ہے۔
علامہ ابن القیم رحمتہ نے زادالمعاد میں اس کی یہی توجیہ پیش کی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4072   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3551  
3551. حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا: نبی ﷺ میانہ قامت تھے۔ دونوں شانوں کے درمیان کشادگی تھی۔ آپ کے بال کان کی لو تک پہنچتے تھے۔ میں نے ایک دفعہ آپ کو سرخ (دھاری دار) جوڑاپہنے دیکھا۔ میں نے آپ سے زیادہ کسی کو حسین اور خوبصورت نہیں دیکھا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ کےبال کندھوں تک پہنچتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3551]
حدیث حاشیہ:
یوسف کے طریق کو خود مؤلف نے ابھی نکالا مگر مختصر طورپر۔
اس میں بالوں کا ذکر نہیں ہے، بعض روایتوں میں آپ کے بال کانوں کی لوتک، بعض روایتوں میں مونڈھوں تک، بعض روایتوں میں ان کے بیچ تک مذکور ہیں۔
ان کا اختلاف یوں رفع ہوسکتا ہے کہ جس وقت آپ تیل ڈالتے، کنگھی کرتے تو بال مونڈھوں تک آجاتے۔
خالی وقتوں میں کانوں تک یا دونوں کے بیچ میں رہتے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3551   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3551  
3551. حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا: نبی ﷺ میانہ قامت تھے۔ دونوں شانوں کے درمیان کشادگی تھی۔ آپ کے بال کان کی لو تک پہنچتے تھے۔ میں نے ایک دفعہ آپ کو سرخ (دھاری دار) جوڑاپہنے دیکھا۔ میں نے آپ سے زیادہ کسی کو حسین اور خوبصورت نہیں دیکھا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ کےبال کندھوں تک پہنچتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3551]
حدیث حاشیہ:

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مباارک کان کی لو سے زیادہ اور کندھوں سے کم تھے،یعنی زیادہ لمبے اور نہ بالکل چھوٹے بلکہ متوسط درجے کے تھے۔
(مسند أحمد: 108/6)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال نصف کانوں تک تھے۔
(صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 6069(2338)
حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے موقع پر مکہ تشریف لائے تو آپ کے چار گیسو تھے۔
(شمائل ترمذی ص: 44)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آپ کے بال کانوں کی لوتک ہوتے،بعض اوقات کندھوں تک پہنچ جاتے۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپ بالوں کی مینڈھیاں بنالیتے پھر دایاں کان دونوں گیسوؤں کے درمیان اور بایاں کان بھی دونوں گیسوؤں کے درمیان بڑا حسین اور خوشنما منظر پیش کرتا۔
ایسا معلوم ہوتا کہ گھنے سیال بالوں کے درمیان خوبصورت کان چمک دار ستاروں کی طرح جگمگارہے ہیں۔
(دلائل النبوة: 298/1)

ان روایات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ جب بالوں میں کنگھی کرتے تو کندھوں تک پہنچ جاتے،کچھ وقت گزرنے تک کانوں کی لوتک آجاتے کیونکہ آپ کے بال شکن دار تھے۔
اگردوران سفر میں کنگھی کرنے کا موقع نہ ملتا تو گیسوؤں کی شکل اختیار کرلیتے۔
ان بالوں کی مختلف اوقات میں مختلف کیفیات ہوتی تھیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3551