صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة -- کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
1. بَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابیوں کی فضیلت کا بیان۔
وَمَنْ صَحِبَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ رَآهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَهْوَ مِنْ أَصْحَابِهِ.
‏‏‏‏ (امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ) جس مسلمان نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار اسے نصیب ہوا ہو وہ آپ کا صحابی ہے۔
حدیث نمبر: 3649
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُو فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ، فَيَقُولُونَ: فِيكُمْ مَنْ صَاحَبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ فَيُفْتَحُ لَهُمْ، ثُمَّ يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُو فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ، فَيُقَالُ: هَلْ فِيكُمْ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَيَقُولُونَ: نَعَمْ فَيُفْتَحُ لَهُمْ، ثُمَّ يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُو فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ، فَيُقَالُ: هَلْ فِيكُمْ مَنْ صَاحَبَ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ فَيُفْتَحُ لَهُمْ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا اور انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک زمانہ آئے گا کہ اہل اسلام کی جماعتیں جہاد کریں گی تو ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تمہارے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی صحابی بھی ہے؟ وہ کہیں گے کہ ہاں ہیں۔ تب ان کی فتح ہو گی۔ پھر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ مسلمانوں کی جماعتیں جہاد کریں گی اور اس موقع پر یہ پوچھا جائے گا کہ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کی صحبت اٹھانے والے (تابعی) بھی موجود ہیں؟ جواب ہو گا کہ ہاں ہیں اور ان کے ذریعہ فتح کی دعا مانگی جائے گی، اس کے بعد ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ مسلمانوں کی جماعتیں جہاد کریں گی اور اس وقت سوال اٹھے گا کہ کیا یہاں کوئی بزرگ ایسے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے شاگردوں میں سے کسی بزرگ کی صحبت میں رہے ہوں؟ جواب ہو گا کہ ہاں ہیں، تو ان کے ذریعہ فتح کی دعا مانگی جائے گی پھر ان کی فتح ہو گی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3649  
3649. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک وقت آئے گا کہ اہل اسلام کی جماعتیں جہاد کریں گی تو ان سے پوچھا جائے گا کہ تم میں سے کوئی شخص ہے جسے رسول اللہ ﷺ کی رفاقت نصیب ہوئی ہو؟وہ کہیں گے: ہاں، تو انھیں فتح نصیب ہوگی۔ پھر لوگوں پر ایک وقت آئے گا کہ مسلمانوں کی جماعتیں جہاد کریں گی اور اس موقع پر یہ پوچھا جائے گا کہ تم میں کوئی ایساشخص ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ کی صحبت اختیار کی ہو؟لوگ کہیں گے: جی ہاں، تو انھیں بھی فتح حاصل ہوگی۔ پھر لوگوں پر ایک وقت آئے گا کہ مسلمانوں کی جماعتیں جہاد کریں گے تو اس وقت سوال اٹھے گا: کیا یہاں کوئی ایسے بزرگ ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام کے شاگردوں میں سے کسی شاگرد کی صحبت میں رہے ہوں؟لوگ جواب دیں گے: جی ہاں، تو انھیں فتح حاصل ہوگی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3649]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ نے ان تین زمانے والوں کی فضیلت بیان فرمائی گویا وہ خیرا لقرون ٹھہرے۔
اسی لیے علماء نے بدعت کی تعریف یہ قرار دی ہے کہ دین میں جو کام نیا نکالاجائے جس کا وجود ان تین زمانوں میں نہ ہو۔
ایسی ہربدعت گمراہی ہے اور جن لوگوں نے بدعت کی تقسیم کی ہے حسنہ اور سیئہ کی طرف، ان کی مراد بدعت سے بدعت لغوی ہے۔
ہمارے مرشد شیخ احمد مجدد سرہندی ؒ فرماتے ہیں کہ میں توکسی بدعت میں سوائے ظلمت اور تاریکی کے مطلق نور نہیں پاتا۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3649   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3649  
3649. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک وقت آئے گا کہ اہل اسلام کی جماعتیں جہاد کریں گی تو ان سے پوچھا جائے گا کہ تم میں سے کوئی شخص ہے جسے رسول اللہ ﷺ کی رفاقت نصیب ہوئی ہو؟وہ کہیں گے: ہاں، تو انھیں فتح نصیب ہوگی۔ پھر لوگوں پر ایک وقت آئے گا کہ مسلمانوں کی جماعتیں جہاد کریں گی اور اس موقع پر یہ پوچھا جائے گا کہ تم میں کوئی ایساشخص ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام ؓ کی صحبت اختیار کی ہو؟لوگ کہیں گے: جی ہاں، تو انھیں بھی فتح حاصل ہوگی۔ پھر لوگوں پر ایک وقت آئے گا کہ مسلمانوں کی جماعتیں جہاد کریں گے تو اس وقت سوال اٹھے گا: کیا یہاں کوئی ایسے بزرگ ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام کے شاگردوں میں سے کسی شاگرد کی صحبت میں رہے ہوں؟لوگ جواب دیں گے: جی ہاں، تو انھیں فتح حاصل ہوگی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3649]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں لوگوں کے تین طبقات کا بیان ہے:
پہلا طبقہ صحابہ کرام ؓ کا ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کی رفاقت اختیار کی یا اس نے آپ کا دیدا رکیا،پھر وہ حالتِ اسلام پر فوت ہوا۔
دوسرا تابعین عظام کا ہے۔
اور تابعین وہ مسلمان ہیں جنھوں نے کم از کم ایک صحابی کی صحبت اٹھائی ہو،پھر اسلام کی حالت میں فوت ہوا ہو۔
تیسر طبقہ تبع تابعین کا ہے۔
ان سے مراد وہ مسلمان ہیں جنھوں نے کسی تابعی کو دیکھا ہو،پھر اسی حالت اسلام میں انھیں موت آئی ہو۔
رسول اللہ ﷺ نے ان تین زمانے والوں کی فضیلت بیان کی ہے کہ وہ خیر القرون ہیں جیسا کہ آئندہ حدیث میں آئے گا۔

اس بناپر بعض علماء نے بدعت کی تعریف یہ کی ہے کہ دین میں کوئی ایسا نیا کام ایجاد کیا جائے جس کا وجود خیرالقرون میں نہ ہو،ایسی ہربدعت گمراہی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3649