صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة -- کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
1. بَابُ فَضَائِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابیوں کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3650
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، سَمِعْتُ زَهْدَمَ بْنَ مُضَرِّبٍ، سَمِعْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ"، قَالَ عِمْرَانُ: فَلَا أَدْرِي أَذَكَرَ بَعْدَ قَرْنِهِ قَرْنَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ إِنَّ بَعْدَكُمْ قَوْمًا يَشْهَدُونَ وَلَا يُسْتَشْهَدُونَ، وَيَخُونُونَ وَلَا يُؤْتَمَنُونَ، وَيَنْذُرُونَ وَلَا يَفُونَ وَيَظْهَرُ فِيهِمُ السِّمَنُ".
مجھ سے اسحٰق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم سے نضر نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی، انہیں ابوجمرہ نے، کہا میں نے زہدم بن مضرب سے سنا، کہا کہ میں نے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کا سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر ان لوگوں کا جو اس زمانہ کے بعد آئیں گے۔ پھر ان لوگوں کا جو اس زمانہ کے بعد آئیں گے۔ عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور کے بعد دو زمانوں کا ذکر کیا یا تین کا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے بعد ایک ایسی قوم پیدا ہو گی جو بغیر کہے گواہی دینے کے لیے تیار ہو جایا کرے گی اور ان میں خیانت اور چوری اتنی عام ہو جائے گی کہ ان پر کسی قسم کا بھروسہ باقی نہیں رہے گا۔ اور نذریں مانیں گے لیکن انہیں پورا نہیں کریں گے (حرام مال کھا کھا کر) ان پر مٹاپا عام ہو جائے گا۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1202  
´شہادتوں (گواہیوں) کا بیان`
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا زمانہ تمہارے تمام زمانوں سے بہتر ہے۔ پھر اس کے بعد والا، پھر اس کے بعد والا، اس کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو گواہی دیں گے اور ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ وہ خائن ہوں گے، امین نہیں ہوں گے۔ نذر مانیں گے مگر پوری نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر و نمایاں ہو گا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1202»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الشهادات، باب لايشهد علي شهادة جور إذا أشهد، حديث:2651، ومسلم، فضائل الصحابة، باب فضل الصحابة....، حديث:2535.»
تشریح:
1. یہ حدیث بظاہر پہلی حدیث کے معارض معلوم ہوتی ہے‘ اس لیے کہ اس حدیث سے ازخود شہادت دینے کی مذمت ہوتی ہے جبکہ پہلی حدیث میں اس کی مدح و تعریف کی گئی ہے۔
تعارض اس طرح ختم ہو جاتا ہے کہ مذمت مطلقاً ازخود شہادت پیش کرنے کی نہیں بلکہ جلدی سے ایسی شہادت دینے کی وجہ سے ہے جس سے جھوٹ ثابت کرنا‘ باطل طریقے سے کھا پی جانا اور لوگوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالنا مقصود ہو۔
حدیث کے سیاق میں غور و تدبر کرنے والا شخص یہ واضح فرق معلوم کر سکتا ہے۔
2. ان دونوں احادیث کا خلاصہ یہ ہوا کہ طلب سے پہلے ازخود شہادت دینا بہتر اور عمدہ طریقہ ہے جبکہ یہ شہادت حقوق کے تحفظ کے لیے دی گئی ہو اور قبیح اس صورت میں ہے کہ جب حقوق کو ہڑپ کر جانے کی نیت سے دی جائے۔
3. اس حدیث میں بہترین زمانے کی نشاندہی ہے جس سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
4.یہ فضیلت جمہور علماء کے نقطۂ نظر سے فرداً فرداً بھی ہو سکتی ہے اور بحیثیت مجموعی بھی۔
لیکن اصحاب بدر اور اصحاب حدیبیہ ہر اعتبار سے افضل ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1202   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2221  
´خیر کے تین عہد اور زمانے کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: تمام لوگوں سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر ان کے بعد آنے والے، پھر ان کے بعد آنے والے، پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو موٹے تازے ہوں گے، موٹاپا پسند کریں گے اور گواہی طلب کرنے سے پہلے ہی گواہی دیتے پھریں گے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2221]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
چونکہ یہ لوگ دین وایمان کی فکر سے خالی ہوں گے،
کس کے سامنے جواب دہی کا کوئی خوف ان کے دلوں میں باقی نہیں رہے گا،
اور عیش و آرام کی زندگی کی مستیاں لے رہے ہوں گے،
اس لیے موٹاپا ان میں عام ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2221   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4657  
´صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جن میں مجھے مبعوث کیا گیا، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں اللہ ہی زیادہ جانتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے کا ذکر کیا یا نہیں، پھر کچھ لوگ رونما ہوں گے جو بلا گواہی طلب کئے گواہی دیتے پھریں گے، نذر مانیں گے لیکن پوری نہ کریں گے، خیانت کرنے لگیں گے جس سے ان پر سے بھروسہ اٹھ جائے گا، اور ان میں موٹاپا عام ہو گا ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4657]
فوائد ومسائل:

اس صحیح حدیث میں صحابہ کرام تابعین عظام اور تبع تابعین کے ادوار کے متعلق اجمالی اور مجموعی طور پر بھلائی کی خبر دی گئی ہے۔


ان کے بعد وقار میں کمی ہوگی۔
دینداری میں ضعف آجائے گا اور آخرت کی فکر کم ہوجائے گی۔


اطباء کے قول کے مطابق آدمی کے جسم میں موٹاپا عام طور پر خوش خوراکی کے علاوہ بے فکری اور بے خوفی کی بناء پر آتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4657   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3650  
3650. حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت کا بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے۔ پھر ان لوگوں کا جو اس زمانے کے بعد آئیں گے۔ پھر ان کا جو اس زمانے کے بعدآئیں گے۔ حضرت عمران بن حصین ؓ کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں کہ آپ ﷺ نے اپنے دور کے بعد زمانوں کا ذکر کیا یاتین کا؟(پھر آپ نے فرمایا:)پھر تمھارے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو گواہی دیں گے۔ جبکہ ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ وہ خیانت کریں گے، ان میں امانت داری نہیں ہوگی۔ وہ نذر اور منت مانیں گے لیکن انھیں پورا نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3650]
حدیث حاشیہ:
خیر القرون کے بعد پیدا ہونے والے دنیا دار نام نہاد مسلمانوں کے متعلق یہ پیش گوئی ہے جو اخلاق اوراعمال کے اعتبار سے بدترین قسم کے لوگ ہوں گے۔
جیسا کہ ارشاد ہوا ہے کہ جھوٹ اور بددیانتی اور دنیا سازی ان کا رات دن کا مشغلہ ہوگا، اللھم لاتجعلنا منھم۔
آمین
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3650   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3650  
3650. حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت کا بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے۔ پھر ان لوگوں کا جو اس زمانے کے بعد آئیں گے۔ پھر ان کا جو اس زمانے کے بعدآئیں گے۔ حضرت عمران بن حصین ؓ کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں کہ آپ ﷺ نے اپنے دور کے بعد زمانوں کا ذکر کیا یاتین کا؟(پھر آپ نے فرمایا:)پھر تمھارے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو گواہی دیں گے۔ جبکہ ان سے گواہی طلب نہیں کی جائے گی۔ وہ خیانت کریں گے، ان میں امانت داری نہیں ہوگی۔ وہ نذر اور منت مانیں گے لیکن انھیں پورا نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا ظاہر ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3650]
حدیث حاشیہ:

حضرت عمران بن حصین ؓ سے مروی اس حدیث میں شک ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے زمانے کے بعد دوزمانوں کا ذکر کیا ہے یا تین کا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ،حضرت ابوہریرہ ؓ،اورحضرت بریرہ ؓ کی مرویات میں بھی شک ہے،البتہ اس حدیث کے اکثر طرق شک کے بغیر ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ا پنے سمت تین زمانوں کو خیرالقرون قراردیا ہے۔
ایک روایت میں چوتھے زمانے کا بھی ذکر ہے لیکن محدثین نے اسے صحیح قرارنہیں دیا۔

خیر القرون کےبعد جھوٹ اور خیانت عام ہوجائے گی اگرچہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کےبعد اس کا آغاز ہوچکا تھا لیکن وہ کسی شمار میں نہ تھا لیکن خیرالقرون کے بعد تو کھلے بندوں اس کا ارتکاب ہونے لگا۔

پھر اس حدیث میں ان نام نہاد مسلمانوں کے متعلق یہ پیش گوئی ہے جواخلاق وکردار کے اعتبار سے بدترین قسم کے لوگ ہوں گے۔
جھوٹ،بددیانتی اور دنیا سازی رات دن ان کا مشغلہ ہوگا۔
خیانت ایسی ظاہر ہوگی کسی کو دوسرے پر اعتماد نہیں ہوگا۔
بے فکری اور حرام خوری کی وجہ سے ان کے جسم موٹے ہوجائیں گے۔
موٹا آدمی ریاضت نہیں کرسکتا۔
یہ یاد رہے کہ وہ موٹا پامذموم ہے جواپنی محنت اور کسبسے حاصل ہو۔
اگر کوئی طبعاً موٹا ہوجائے تو وہ اس حدیث کا مصداق نہیں بشرط یہ کہ وہ اچھی صفات کا حامل ہو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3650