صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة -- کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
6. بَابُ مَنَاقِبُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَبِي حَفْصٍ الْقُرَشِيِّ الْعَدَوِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
باب: ابوحفص عمر بن خطاب قرشی عدوی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3687
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ هُوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ أَسْلَمَ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلَنِي ابْنُ عُمَرَ، عَنْ بَعْضِ شَأْنِهِ يَعْنِي عُمَرَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ:" مَا رَأَيْتُ أَحَدًا قَطُّ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حِينَ قُبِضَ كَانَ أَجَدَّ وَأَجْوَدَ حَتَّى انْتَهَى مِنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمر بن محمد نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھ سے اپنے والد عمر رضی اللہ عنہ کے بعض حالات پوچھے، جو میں نے انہیں بتا دیئے تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد میں نے کسی شخص کو دین میں اتنی زیادہ کوشش کرنے والا اور اتنا زیادہ سخی نہیں دیکھا اور یہ خصائل عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ پر ختم ہو گئے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 632  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قربانی حجامت کرانے سے پہلے کی اور اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا۔ (بخاری) [بلوغ المرام/حدیث: 632]
632راوئ حدیث:
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ مسور کے میم کے نیچے کسرہ سین ساکن اور واو پر فتحہ ہے۔ مخرمہ میں میم پر فتحہ خا ساکن اور را پر فتحہ ہے۔ زہری قرشی ہیں۔ صاحب فضل لوگوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مکہ منتقل ہو گئے۔ یزید بن معاویہ نے جب 64 ہجری کے آغاز میں مکے کا محاصرہ کیا تو اس وقت نماز پڑھتے ہوئے انہیں منجنیق کا پتھر آ کر لگا اور وہ وفات پا گئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 632   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3687  
3687. حضرت اسلم سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ مجھے سے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے حضرت عمر ؓ کے کچھ حالات پوچھے تو میں نے انھیں بتایا کہ جب سے رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی ہے، میں نے آپ کے بعد کوئی شخص ایسا نہیں دیکھا جو معاملات نمٹانے میں بہت کوشش کرنے والا۔ اور اللہ کی راہ میں زیادہ سخاوت کرنے والاہواور یہ خوبیاں حضرت عمر ؓ پر ختم ہو گئیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3687]
حدیث حاشیہ:
مراد یہ ہے کہ اپنے عہد خلافت میں حضرت عمر بن خطاب ؓ بہت بڑے دلاور، بہت بڑے سخی اور اسلام کے عظیم ستون تھے، منقبت کا جہاں تک تعلق ہے حضرت ابوبکر ؓ کا مقام جملہ صحابہ سے اعلیٰ و ارفع ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3687   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3687  
3687. حضرت اسلم سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ مجھے سے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے حضرت عمر ؓ کے کچھ حالات پوچھے تو میں نے انھیں بتایا کہ جب سے رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی ہے، میں نے آپ کے بعد کوئی شخص ایسا نہیں دیکھا جو معاملات نمٹانے میں بہت کوشش کرنے والا۔ اور اللہ کی راہ میں زیادہ سخاوت کرنے والاہواور یہ خوبیاں حضرت عمر ؓ پر ختم ہو گئیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3687]
حدیث حاشیہ:
حضرت اسلم سیدنا عمر بن خطاب ؓ کے غلام تھے۔
انھوں نےحضرت عمر کے متعلق فرمایا:
میں نے ان کی مدت خلافت کے دوران میں کوئی شخص ایسا نہیں دیکھا جو ان سے زیادہ سخی اور ان تھک کوشش کرنے والا ہو۔
اس شہادت اور گواہی سے حضرت عمر ؓ کی منقبت ثابت ہوتی ہے کہ آپ اسلام کے بہت بڑے ستون تھے۔
۔
۔
رضي اللہ تعالیٰ عنه۔
۔
۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3687