مختصر صحيح بخاري
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ( نزول ) وحی کا آغاز

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی ابتداء کس طرح ہوئی (یعنی اس کا ظہور کیونکر ہوا)۔
حدیث نمبر: 7
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ ہرقل (شاہ روم) نے ان کے پاس ایک آدمی بھیجا (اور وہ) قریش کے چند سواروں میں (اس وقت بیٹھے ہوئے تھے) اور وہ لوگ شام میں تاجر (بن کر گئے) تھے (اور یہ واقعہ) اس زمانہ میں (ہوا ہے) جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان اور (نیز دیگر) کفار قریش سے ایک محدود عہد کیا تھا۔ چنانچہ سب قریش ہرقل کے پاس آئے اور یہ لوگ (اس وقت) ایلیاء میں تھے۔ تو ہرقل نے ان کو اپنے دربار میں طلب کیا اور اس کے گرد سرداران روم (بیٹھے ہوئے) تھے۔ پھر ان (سب قریشیوں) کو اس نے (اپنے قریب) بلایا اور اپنے ترجمان کو طلب کیا اور (قریشیوں سے مخاطب ہو کر) کہا کہ تم میں سب سے زیادہ اس شخص کا قریب النسب کون ہے جو اپنے کو نبی کہتا ہے؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں ان سب سے زیادہ (ان کا) قریب النسب ہوں (یہ سن کر) ہرقل نے کہا کہ ابوسفیان کو میرے قریب کر دو اور اس کے ساتھیوں کو (بھی) قریب رکھو اور ان کو ابوسفیان کے پس پشت (کھڑا) کرو۔ پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہو کہ میں ابوسفیان سے اس مرد کا حال پوچھتا ہوں (جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے) پس اگر یہ مجھ سے جھوٹ بیان کرے تو تم (فوراً) اس کی تکذیب کر دینا۔ (ابوسفیان) کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! اگر (مجھے) اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ لوگ میرے اوپر جھوٹ بولنے کا الزام لگائیں گے یقیناً میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت غلط باتیں بیان کر دیتا۔ غرض سب سے پہلے جو ہرقل نے مجھ سے پوچھا تھا، یہ تھا کہ ان کا نسب تم لوگوں میں کیسا ہے؟ میں نے کہا کہ وہ ہم میں عالی نسب ہیں۔ (پھر) ہرقل نے کہا کہ کیا تم میں سے کسی نے ان سے پہلے بھی اس بات (یعنی نبوت) کا دعویٰ کیا ہے؟ میں نے کہا نہیں (پھر) ہرقل نے کہا کہ کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گزرا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ (پھر) ہرقل نے کہا کہ بااثر لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے؟ میں نے کہا (امیروں نے نہیں بلکہ) کمزور لوگوں نے۔ (پھر) ہرقل بولا کہ آیا ان کے پیرو (روز بروز) بڑھتے جاتے ہیں یا گھٹتے جاتے ہیں؟ میں نے کہا (کم نہیں ہوتے بلکہ) زیادہ ہوتے جاتے ہیں۔ (پھر) ہرقل نے پوچھا کہ آیا ان (لوگوں) میں سے (کوئی) ان کے دین میں داخل ہونے کے بعد ان کے دین سے بدظن ہو کر منحرف بھی ہو جاتا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ (پھر) ہرقل نے پوچھا کہ کیا وہ (کبھی) وعدہ خلافی کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ اور اب ہم ان کی طرف سے مہلت میں ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ اس (مہلت کے زمانہ) میں کیا کریں گے (وعدہ خلافی یا وعدہ وفائی) ابوسفیان کہتے ہیں کہ سوائے اس کلمہ کے اور مجھے موقع نہیں ملا کہ میں بات (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات میں) داخل کر دیتا۔ (پھر) ہرقل نے پوچھا کہ کیا تم نے (کبھی) اس سے جنگ کی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ تو (ہرقل) بولا تمہاری جنگ اس سے کیسی رہتی ہے؟ میں نے کہا کہ لڑائی ہمارے اور ان کے درمیان ڈول (کے مثل) رہتی ہے کہ (کبھی) وہ ہم سے لے لیتے ہیں اور (کبھی) ہم ان سے لے لیتے ہیں (یعنی کبھی ہم فتح پاتے ہیں اور کبھی وہ) (پھر) ہرقل نے پوچھا کہ وہ تم کو کیا حکم دیتے ہیں؟ میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور (شرکیہ باتیں و عبادتیں) جو تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے، سب چھوڑ دو اور ہمیں نماز (پڑھنے) اور سچ بولنے اور پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے ترجمان سے کہا کہ ابوسفیان سے کہو کہ میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہارے درمیان میں (اعلیٰ) نسب والے ہیں چنانچہ تمام پیغمبر اپنی قوم کے نسب میں اسی طرح (عالی نسب) مبعوث ہوا کرتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا یہ بات (یعنی اپنی نبوت کی خبر) تم میں سے کسی اور نے بھی ان سے پہلے کہی تھی؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں۔ میں نے (اپنے دل میں) یہ کہا تھا کہ اگر یہ بات ان سے پہلے کوئی کہہ چکا ہوا تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک ایسے شخص ہیں جو اس قول کی تقلید کرتے ہیں جو ان سے پہلے کہا جا چکا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ تھا؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں۔ پس میں نے (اپنے دل میں) کہا تھا کہ ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ ہوا ہو گا تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک شخص ہیں جو اپنے باپ دادا کا ملک (اقتدار حاصل کرنا) چاہتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا اس سے پہلے کہ انھوں نے جو یہ بات (نبوت کا دعویٰ) کہی ہے، کہیں تم ان پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے؟ تو تم نے کہا کہ نہیں۔ پس (اب) میں یقیناً جانتا ہوں کہ (کوئی شخص) ایسا نہیں ہو سکتا کہ لوگوں سے تو جھوٹ بولنا (غلط بیانی) چھوڑ دے اور اللہ پر جھوٹ بولے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا بڑے (بااثر) لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے؟ تم نے کہا کہ کمزور لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے اور (دراصل) تمام پیغمبر کے پیرو یہی لوگ (ہوتے رہے) ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے پیرو زیادہ ہوتے جاتے ہیں یا کم؟ تو تم نے بیان کیا کہ زیادہ ہوتے جاتے ہیں اور (درحقیقت) ایمان کا یہی حال (ہوتا) ہے تاوقتیکہ کمال کو پہنچ جائے اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص ان کے دین میں داخل ہونے کے بعد ان کے دین سے ناخوش ہو کہ (دین سے) پھر بھی جاتا ہے؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں! اور ایمان (کا حال) ایسا ہی ہے جب اس کی بشاشت دلوں میں رچ بس جائے (تو پھر نہیں نکلتی) اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا وہ وعدہ خلافی کرتے ہیں؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں! اور (بات یہ ہے کہ) اسی طرح تمام پیغمبر وعدہ خلافی نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا کہ وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں؟ تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہیں یہ حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو نیز تمہیں بتوں کی پرستش سے منع کرتے ہیں اور تمہیں نماز (پڑھنے) سچ بولنے اور پرہیزگاری (اختیار کرنے) کا حکم دیتے ہیں پس اگر جو تم کہتے ہو سچ ہے تو عنقریب وہ میرے ان دونوں قدموں کی جگہ کے مالک ہو جائیں گے اور بیشک میں (کتب سابقہ کی پیش گوئی سے) جانتا تھا کہ وہ ظاہر ہونے والے ہیں مگر میں یہ نہ سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے۔ پس اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکوں گا تو میں ان سے ملنے کا بڑا اہتمام و سعی کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو یقیناً میں ان کے قدموں کو دھوتا۔ پھر ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا (مقدس) خط، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا دحیہ کلبی کے ہمراہ امیر بصریٰ کے پاس بھیجا تھا اور امیر بصریٰ نے اس کو ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا، منگوایا (اور اس کو پڑھوایا) تو اس میں (یہ مضمون) تھا۔
اللہ نہایت مہربان رحم والے کے نام سے
(یہ خط ہے) اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بادشاہ روم کی طرف۔ اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔ بعد اس کے (واضح ہو کہ) میں تم کو اسلام کی طرف بلاتا ہوں۔ اسلام لاؤ گے تو (قہر الہٰی سے) بچ جاؤ گے اور اللہ تمہیں تمہارا ثواب دوگنا دے گا اور اگر تم (میری دعوت سے) سے منہ پھیرو گے تو بلاشبہ تم پر (تمہاری) تمام رعیت کے (ایمان نہ لانے) کا گناہ ہو گا اور اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے یعنی یہ کہ ہم اور تم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو سوائے اللہ کے پروردگار بنائے (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ) پھر اگر اہل کتاب اس سے اعراض کریں تو تم کہہ دینا کہ اس بات کے گواہ رہو کہ ہم تو اللہ کی اطاعت کرنے والے ہیں۔ (آل عمران: 64) ابوسفیان کہتے ہیں کہ ہرقل نے جو کچھ کہنا تھا، کہہ چکا اور (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا) خط پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے ہاں بہت ہی شور ہونے لگا۔ آوازیں بلند ہوئیں اور ہم لوگ (وہاں سے) نکال دیے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا، جب کہ ہم سب باہر کر دیے گئے، کہ (دیکھو تو) ابوکبثہ کے بیٹے (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کا معاملہ و رتبہ ایسا بڑھ گیا کہ اس سے بنو اصفر (روم) کا بادشاہ بھی خوف کھاتا ہے۔ پس ہمیشہ میں اس کا یقین رکھتا رہا کہ وہ عنقریب غالب ہو جائیں گے یہاں تک کہ اللہ نے مجھ کو مشرف بہ اسلام کر دیا۔ فرمایا اور ابن ناطور جو ایلیاء کا حاکم، ہرقل کا مصاحب اور شام کے عیسائیوں کا پیر پادری ہے، وہ بیان کرتا ہے کہ ہرقل جب ایلیاء میں آیا تو ایک دن صبح کو بہت پریشان خاطر اٹھا تو اس کے بعض خواص نے کہا کہ ہمیں (اس وقت) آپ کی حالت کچھ اچھی دکھائی نہیں دیتی۔ ابن ناطور کہتا ہے کہ ہرقل کاہن تھا، علم نجوم میں مہارت رکھتا تھا، تو اس نے اپنے خواص سے، جب کہ انھوں نے پوچھا یہ کہا کہ میں نے رات کو جب ستاروں میں نظر کی تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والا بادشاہ غالب ہو گیا تو (دیکھو کہ) اس دور کے لوگوں میں ختنہ کون کرتا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ سوائے یہود کے کوئی ختنہ نہیں کرتا، سو یہود کی طرف سے آپ اندیشہ نہ کریں اور اپنے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں (حاکموں کو) لکھ بھیجئے کہ جتنے یہود وہاں ہیں سب قتل کر دیے جائیں۔ پس وہ لوگ اپنی اسی منصوبہ بندی میں تھے کہ ہرقل کے پاس آدمی لایا گیا جسے غسان کے بادشاہ نے بھیجا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر بیان کرتا تھا سو جب ہرقل نے اس سے یہ خبر معلوم کی تو (اپنے لوگوں سے) کہا کہ جاؤ اور دیکھو کہ وہ ختنہ کیے ہوئے ہے یا نہیں؟ لوگوں نے اس کو دیکھا تو بیان کیا کہ وہ ختنہ کیے ہوئے ہے۔ اور ہرقل نے اس سے اہل عرب کا حال پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں۔ تب ہرقل نے کہا کہ یہی (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) اس دور کے لوگوں کا بادشاہ ہے جو ظاہر ہو گیا۔ پھر ہرقل نے اپنے دوست کو رومیہ (یہ حال) لکھ بھیجا وہ علم (نجوم) میں اسی کا ہم پلہ تھا اور (یہ لکھ کر) ہرقل حمص کی طرف چلا گیا۔ پھر حمص سے باہر بھی نہیں جانے پایا تھا کہ اس کے دوست کا خط (اس کے جواب میں) آ گیا۔ وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بارے میں ہرقل کی رائے کی موافقت کرتا تھا اور یہ (اس نے لکھا تھا) کہ وہ نبی ہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے سرداران روم کو اپنے محل میں جو حمص میں تھا طلب کیا اور حکم دیا کہ محل کے دروازے بند کر دیے جائیں، تو وہ بند کر دیے گئے، پھر ہرقل (اپنے بالاخانے) نمودار ہوا اور کہا کہ اے روم والو! کیا ہدایت اور کامیابی میں (کچھ حصہ) تمہارا بھی ہے؟ اور (تمہیں) یہ منظور ہے) کہ تمہاری سلطنت قائم رہے (اگر ایسا چاہتے ہو) تو اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر لو۔ تو (اس کے سنتے ہی) وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف بھاگے، کواڑوں کو بند پایا۔ بالآخر جب ہرقل نے (اس درجے) ان کی نفرت دیکھی اور (ان کے) ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو بولا کہ ان لوگوں کو میرے پاس واپس لاؤ اور (جب وہ آئے تو ان سے) کہا کہ میں نے یہ بات ابھی جو کہی تو اس سے تمہارے دین کی مضبوطی کا امتحان لینا (مقصود) تھا اور وہ مجھے معلوم ہو گئی۔ پس لوگوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہو گئے اور ہرقل کی آخری حالت یہی رہی۔