صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة -- کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
20. بَابُ مَنَاقِبُ عَمَّارٍ وَحُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:
باب: عمار اور حذیفہ رضی اللہ عنہما کے فضائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3743
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: ذَهَبَ عَلْقَمَةُ إِلَى الشَّأْمِ فَلَمَّا دَخَلَ الْمَسْجِدَ، قَالَ:" اللَّهُمَّ يَسِّرْ لِي جَلِيسًا صَالِحًا" , فَجَلَسَ إِلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ قَالَ: مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ، قَالَ: أَلَيْسَ فِيكُمْ أَوْ مِنْكُمْ صَاحِبُ السِّرِّ الَّذِي لَا يَعْلَمُهُ غَيْرُهُ يَعْنِي حُذَيْفَةَ، قَالَ: قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: أَلَيْسَ فِيكُمْ أَوْ مِنْكُمُ الَّذِي أَجَارَهُ اللَّهُ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي مِنَ الشَّيْطَانِ يَعْنِي عَمَّارًا، قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: أَلَيْسَ فِيكُمْ أَوْ مِنْكُمْ صَاحِبُ السِّوَاكِ وَالْوِسَادِ أَوِ السِّرَارِ، قَالَ: بَلَى، قَالَ: كَيْفَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَقْرَأُ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى {1} وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى {2} سورة الليل آية 1-2؟ قُلْتُ: 0 وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى 0 , قَالَ: مَا زَالَ بِي هَؤُلَاءِ حَتَّى كَادُوا يَسْتَنْزِلُونِي عَنْ شَيْءٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نے بیان کیا کہ علقمہ رضی اللہ عنہ شام میں تشریف لے گئے اور مسجد میں جا کر یہ دعا کی۔ اے اللہ! مجھے ایک نیک ساتھی عطا فرما، چنانچہ آپ کو ابودرداء رضی اللہ عنہ کی صحبت نصیب ہوئی۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: تمہارا تعلق کہاں سے ہے؟ عرض کیا کہ کوفہ سے، اس پر انہوں نے کہا: کیا تمہارے یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے راز دار نہیں ہیں کہ ان رازوں کو ان کے سوا اور کوئی نہیں جانتا؟ (ان کی مراد ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ سے تھی) انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا جی ہاں موجود ہیں، پھر انہوں نے کہا کیا تم میں وہ شخص نہیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبانی شیطان سے اپنی پناہ دی تھی۔ ان کی مراد عمار رضی اللہ عنہ سے تھی۔ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں وہ بھی موجود ہیں، اس کے بعد انہوں نے دریافت کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آیت «والليل إذا يغشى * والنهار إذا تجلى‏» کی قرآت کس طرح کرتے تھے؟ میں نے کہا کہ وہ ( «وما خلق» کے حذف کے ساتھ) «والذكر والأنثى‏» پڑھا کرتے تھے۔ اس پر انہوں نے کہا یہ شام والے ہمیشہ اس کوشش میں رہے کہ اس آیت کی تلاوت کو جس طرح میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا اس سے مجھے ہٹا دیں۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3743  
3743. حضرت ابراہیم نخعی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت علقمہ ؓ ملک شام گئے اور مسجد میں داخل ہوئے تو دعا کی: اےاللہ! مجھے اچھا ساتھی عنایت فرما۔ تو وہ حضرت ابو درداء ؓ کے پاس بیٹھے۔ انھوں نے فرمایا: تم کن لوگوں میں سے ہو؟حضرت علقمہ نے کہا: اہل کوفہ سےہوں۔ حضرت ابو درداء ؓ نے فرمایا: کیا تم میں وہ رازداں نہیں ہیں جو ایسے بھیدوں سے واقف تھے جنھیں ان کے سوا اور کوئی نہیں جانتا تھا، یعنی حضرت حذیفہ ؓ ؟راوی کہتے ہیں۔ میں نے کہا: کیوں نہیں، موجود ہیں۔ پھر انھوں نے پوچھا: کیا تم میں وہ شخص نہیں ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی زبان پر شیطان کے شر سے نجات دی ہے، یعنی حضرت عمار بن یاسر ؓ؟میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، موجود ہیں۔ پھر انھوں نےدریافت کیا: کیا تم میں صاحب سواک اور صاحب و سادہ موجود نہیں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں بلکہ موجود ہیں۔ پھر انھوں نے پوچھا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3743]
حدیث حاشیہ:

مشہور قراءت ﴿وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ﴾ ہے جو عرصہ اخیرہ میں پڑھی گئی۔
ممکن ہے کہ پہلے اس آیت کا نزول حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی قرآءت کے مطابق ہو، لیکن بعد میں (وَمَا خَلَقَ)
کا اس میں اضافہ ہوا لیکن حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی ؓ اور حضرت ابو درداء ؓ کو اس کی خبر نہ ہوئی ہو۔
وہ پہلی قرآءت کے مطابق ہی پڑھتے رہے۔

بہر حال ان احادیث میں حضرت حذیفہ ؓ اور حضرت عمار بن یاسر ؓ کی منقبت کا بیان ہے کہ پہلی شخصیت رسول اللہ ﷺ کی رازداں اور دوسری ہستی کو رسول اللہ ﷺ کے ذریعے سے شیطان مردود کے شر سے پناہ دی گئی تھی۔
حضرت خثیمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ مدینہ طیبہ آیا تو میں نے بھی یہی دعا کی تھی۔
اے اللہ! مجھے کوئی اچھا ہم نشین عطا فرما تو میری ملاقات حضرت ابو ہریرہ ؓ سے ہوئی تو انھوں نے بھی حضرت عمار ؓ اور حضرت حذیفہ ؓ کے متعلق وہی فرمایا جو حضرت ابو درداء ؓ نے فرمایا تھا بلکہ انھوں نے حضرت سعد بن مالک ؓ کے متعلق فرمایا کہ وہ مستجاب الدعوات ہیں اور حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے متعلق کہا کہ وہ صاحب نعلین ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے وضو کا بندو بست کرتے تھے۔
(جامع الترمذي، المناقب، حدیث: 3811)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3743