صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة -- کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
24. بَابُ ذِكْرُ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:
باب: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا ذکر خیر۔
حدیث نمبر: 3756
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: ضَمَّنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى صَدْرِهِ، وَقَالَ:" اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْحِكْمَةَ". حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، وَقَالَ:" عَلِّمْهُ الْكِتَابَ"، حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ خَالِدٍ مِثْلَهُ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے خالد نے، ان سے عکرمہ نے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینے سے لگایا اور فرمایا اے اللہ! اسے حکمت کا علم عطا فرما۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث166  
´عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے مناقب و فضائل۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سینہ سے لگایا، اور یہ دعا فرمائی: «اللهم علمه الحكمة وتأويل الكتاب» اے اللہ! اس کو میری سنت اور قرآن کی تفسیر کا علم عطاء فرما۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 166]
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث میں حکمت یعنی دانائی سے مراد حدیث کا علم ہے، قرآن مجید میں یہ لفظ اس مفہوم میں وارد ہے۔
ارشاد ہے:
(وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتٰـبَ وَالحِكمَةَ) (البقرۃ: 129) (حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ اے اللہ! ان میں رسول مبعوث فرما، جو)
انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے۔

(2)
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی علیہ السلام کی یہ دعا قبول فرمائی اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو علم تفسیر میں وہ بلند مقام ملا کہ انہیں امیر المفسرین کہا گیا۔
تفسیر ابن عباس قرآن کی مشہور تفسیر ہے جو بازار سے دستیاب ہو سکتی ہے۔
3)
چھوٹے بچوں کو، خصوصاً جو بزرگوں کی خدمت کریں، دعا دینی چاہیے۔

(4)
بچوں کے اظہار شفقت کے لیے سینے سے لگانا جائز ہے۔
بشرطیکہ لوگوں کے دلوں میں غلط قسم کے شکوک و شبہات پیدا ہونے کا خدشہ نہ ہو۔

(5)
علم نافع کے حصول کی دعا ایک بہترین دعا ہے کیونکہ اس سے دنیا میں بھی عزت ملتی ہے اور آخرت میں بھی بلند درجات حاصل ہوتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 166   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3822  
´عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے جبرائیل علیہ السلام کو دو بار دیکھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دو مرتبہ دعائیں کیں۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3822]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3822   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3756  
3756. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نےکہا کہ مجھے نبی ﷺ نے اپنے سینے سے لگا کر دعا فرمائی: اے اللہ!اسے حکمت سکھا دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3756]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ کی دعاکی برکت تھی کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ علوم قرآن میں سب پرفوقیت لے گئے
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3756   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3756  
3756. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نےکہا کہ مجھے نبی ﷺ نے اپنے سینے سے لگا کر دعا فرمائی: اے اللہ!اسے حکمت سکھا دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3756]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ بیت الخلاء داخل ہوئے تو ابن عباس ؓ نے آپ کے لیے وضو کا پانی رکھ دیا۔
جب آپ فارغ ہوئے تو پوچھا:
پوچھا یہ پانی کس نے رکھا ہے؟بتایا گیا کہ ابن عباس ؓنے خدمت گزاری کی ہے توآپ ﷺنے یوں دعا فرمائی:
"اے اللہ! اسے دین میں سمجھ عطا فرما۔
"(فتح الباری 126/7۔
)

رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں میں برکت تھی کہ حضرت ابن عباس ؓ قرآن فہمی اوردینی فقاہت میں کمال مہارت رکھتے تھے،چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓآپ کے متعلق فرماتے ہیں:
آپ بہترین ترجمان القرآن تھے۔
مسند بزار میں رسول اللہﷺ کی دعا کے یہ الفاظ بیان کیے گئے ہیں:
اے اللہ!اسے قرآن کی تاویل سکھادے۔
(صحیح البخاری الوضوء حدیث 143۔
)


لفظ حکمت حضرات انبیاءؑاور غیر انبیاء ؑدونوں کے لیے مستعمل ہے۔
اگرانبیاءؑکے لیے ہےتو اس کے معنی ہیں:
نبوت اور اصابت جیسا کہ حضرت داؤدؑکے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"ہم نے اس کو حکمت عطا فرمائی۔
"(فتح الباری 127/7۔
)

اس حکمت سے مراد نبوت ہے اور اگرانبیاء ؑکے لیے مستعمل ہوتو اس کے معنی ہیں:
رائے کا درست ہونا۔
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ حکمت سے مراد وہ نور ہے جو الہام اور وسواس میں فرق کرتا ہے۔
امام بخاریؒ کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ حکمت کا لفظ جب غیرنبوت کے لیے ہوتو اس کے معنی اصابت کے ہیں۔
بہرحال حضرت ا بن عباس ؓ حبرالامت اورتفسیر قرآن کے سلسلے میں تمام صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین سے زیادہ علم رکھتے تھے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3756