صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة -- کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
28. بَابُ ذِكْرُ مُعَاوِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
باب: معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 3765
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، قِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ:" هَلْ لَكَ فِي أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ مُعَاوِيَةَ فَإِنَّهُ مَا أَوْتَرَ إِلَّا بِوَاحِدَةٍ، قَالَ: إِنَّهُ فَقِيهٌ".
ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ امیرالمؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں، انہوں نے وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ خود فقیہ ہیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3765  
3765. حضرت ابن ابی ملیکہ ہی سے روایت ہے، ابن عباس ؓ سے کہاگیا: امیرالمومنین حضرت معاویہ ؓ کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں، انھوں نے وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی ہے؟انھوں نے فرمایا: بلاشبہ وہ خود فقیہ ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3765]
حدیث حاشیہ:
ایک رکعت خود رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، غالبا اسی حدیث پر حضرت امیر معاویہ ؓ کا عمل تھا، جماعت اہل حدیث کا آج بھی اکثر اسی حدیث پر عمل ہے، یوں تو7-5-3 رکعات وتر بھی جائز ہیں مگر وتر آخری ایک رکعت ہی کانام ہے، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے جواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حضرت معاویہ ؓ کو فقیہ جانتے تھے اور ان کے عمل شرعی کو حجت گردانتے تھے، اس سے بھی حضرت معاویہ ؓ کی منقبت ثابت ہوتی ہے اور یہی ترجمہ باب سے مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3765   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3765  
3765. حضرت ابن ابی ملیکہ ہی سے روایت ہے، ابن عباس ؓ سے کہاگیا: امیرالمومنین حضرت معاویہ ؓ کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں، انھوں نے وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی ہے؟انھوں نے فرمایا: بلاشبہ وہ خود فقیہ ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3765]
حدیث حاشیہ:

ان احادیث سے حضرت معاویہ ؓ کی فضیلت بیان ہوتی ہے کہ آپ شرف صحابیت سے متصف ہونے کے ساتھ فقیہ بھی ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ کے جواب سے ظاہر ہوتا ہے۔
وہ حضرات امیر معاویہ کو فقیہ جانتے تھے اور ان کے عمل شرعی کوحجت گرادنتے تھے۔
ایک رکعت وتر پڑھنا خود رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔
حضرت معاویہ کا اس پر عمل تھا۔
علامہ ابن تین کا یہ دعویٰ کہ وتر ایک رکعت کے متعلق فقہاء میں سے کوئی قائل نہیں،یہ دعویٰ بلادلیل ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس بات کانوٹس لیا ہے۔
(فتح الباري: 132/7)

حضرت معاویہ ؓ کے متعلق متعدد احادیث کتب حدیث میں موجود ہیں جو ان کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں لیکن وہ امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہ تھیں،اس لیے ان کاذکر نہیں کیا۔
رسول اللہ ﷺ نے کسی کام کے لیے حضرت معاویہ ؓ کو بلوایا،معلوم ہوا کہ آپ کھاناکھارہے ہیں دوتین دفعہ ایسا ہوا توآپ نے فرمایا:
اللہ کرے اس کا پیٹ کبھی نہ بھرے۔
(صحیح مسلم، البر و الصلة والأدب، حدیث: 6628(2604)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ کوئی ایسا کام تھا جسے صرف حضرت معاویہ ؓ ہی کرسکتے تھے بصورت دیگر رسول اللہ ﷺ کسی دوسرے کو وہ کام کہہ دیتے۔
رہے حدیث کے آخر میں کلمات تو وہ بددعا طور پر نہ تھے بلکہ محض پیار کی بات تھی۔
اس حدیث پرصحیح مسلم میں ان الفاظ میں عنوان قائم کیا گیا ہے۔
(باب من لعنه النبي صلى الله عليه وسلم، أو سبه، أو دعا عليه، وليس هو أهلا لذلك، كان له زكاة وأجرا ورحمة)
رسول اللہ ﷺ جس انسان پر لعنت کریں یا بُرا بھلاکہیں یا بدعا کریں،حالانکہ وہ اس لائق نہ ہو تو وہ کلمات نبویہ اس شخص کے لیے پاکیزگی کاذریعہ اورباعث اجر ورحمت ہوں گے۔
بہرحال امام بخاری ؒ کے عنوان میں تبدیلی کسی وجہ سے نہیں جیسا کہ شارحین نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3765