مختصر صحيح بخاري
جہاد اور جنگی حالات کے بیان میں

جس شخص نے فارسی زبان میں یا کسی اور غیر عربی زبان میں کلام کیا اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الروم میں یہ) فرمانا ”اور تمہارے رنگ اور زبانوں کا اختلاف ہے“۔ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہر زبان میں کلام کرنا جائز ہے۔ اور (سورۃ ابراہیم میں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی اپنی زبان میں۔
حدیث نمبر: 1311
سیدہ ام خالد بنت خالد بن سعید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور میرے جسم پر (اس وقت) ایک زرد (رنگ کا) کرتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنہ سنہ۔ اور یہ حبشی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی ہیں حسنہ (یعنی اچھی ہے)۔ ام خالد رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پھر میں مہر نبوت کے ساتھ کھیلنے لگی تو میرے والد نے مجھے ڈانٹا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے رہنے دو۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھے درازی عمر کی دعا دی یعنی) فرمایا: پرانا کرو اور پھاڑو۔ پھر پرانا کرو اور پھاڑو پھر پرانا کرو اور پھاڑو۔