مختصر صحيح بخاري
آغار تخلیق کا بیان

ابلیس اور اس کے لشکر کا بیان۔
حدیث نمبر: 1384
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ (ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا (اس کا اثر یہ ہوا کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال ہوتا تھا کہ ایک کام کیا ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نہ کیا ہوتا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن دعا کی اور (بہت) دعا کی۔ اس کے بعد (مجھ سے) فرمایا: تم کو معلوم ہے کہ اللہ نے مجھے وہ بات بتا دی جس میں میری شفاء ہے۔ دو آدمی میرے پاس آئے، ان میں سے ایک میرے سر کے پاس اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس پیٹھ گیا۔ پھر ان میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ اس شخص کو کیا بیماری ہے؟ دوسرے نے کہا کہ ان پر جادو کیا گیا ہے۔ اس نے پوچھا کہ کس نے ان پر جادو کیا ہے؟ دوسرے نے کہا کہ لبید بن اعصم (یہودی) نے۔ اس نے پوچھا کہ کس چیز میں؟ دوسرے نے کہا کہ کنگھی میں اور بالوں میں اور نر کھجور کے خوشے کے اوپر والے چھلکے میں۔ اس نے پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟ دوسرے نے کہا کہ ذروان (نامی) کنویں میں۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے۔ جب وہاں سے واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: اس (کنویں) کے (قریب والے) درخت گویا کہ شیاطین کے سر ہیں۔ (عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ) میں نے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نکلوا لیا؟ فرمایا کہ نہیں۔ اللہ نے تو مجھے شفاء دے دی اور (اس کے نکلوانے میں) مجھے یہ خیال ہوا کہ لوگوں میں فساد پھیلے گا (اور جادو کا چرچا زیادہ ہو جائے گا) اس کے بعد وہ کنواں بند کر دیا گیا۔