صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ -- کتاب: انصار کے مناقب
24. بَابُ حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ:
باب: زید بن عمرو بن نفیل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3828
وَقَالَ اللَّيْثُ: كَتَبَ إِلَيَّ هِشَامٌ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَتْ: رَأَيْتُ زَيْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ قَائِمًا مُسْنِدًا ظَهْرَهُ إِلَى الْكَعْبَةِ، يَقُولُ: يَا مَعَاشِرَ قُرَيْشٍ وَاللَّهِ مَا مِنْكُمْ عَلَى دِينِ إِبْرَاهِيمَ غَيْرِي , وَكَانَ يُحْيِي الْمَوْءُودَةَ، يَقُولُ: لِلرَّجُلِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَقْتُلَ ابْنَتَهُ لَا تَقْتُلْهَا أَنَا أَكْفِيكَهَا مَئُونَتَهَا فَيَأْخُذُهَا فَإِذَا تَرَعْرَعَتْ، قَالَ: لِأَبِيهَا إِنْ شِئْتَ دَفَعْتُهَا إِلَيْكَ وَإِنْ شِئْتَ كَفَيْتُكَ مَئُونَتَهَا".
اور لیث بن سعد نے کہا کہ مجھے ہشام نے لکھا، اپنے والد (عروہ بن زبیر) سے اور انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے زید بن عمرو بن نفیل کو کعبہ سے اپنی پیٹھ لگائے ہوئے کھڑے ہو کر یہ کہتے سنا، اے قریش کے لوگو! اللہ کی قسم میرے سوا اور کوئی تمہارے یہاں دین ابراہیم پر نہیں ہے اور زید بیٹیوں کو زندہ نہیں گاڑتے تھے اور ایسے شخص سے جو اپنی بیٹی کو مار ڈالنا چاہتا کہتے اس کی جان نہ لے اس کے تمام اخراجات کا ذمہ میں لیتا ہوں، چنانچہ لڑکی کو اپنی پرورش میں رکھ لیتے جب وہ بڑی ہو جاتی تو اس کے باپ سے کہتے اب اگر تم چاہو تو میں تمہاری لڑکی کو تمہارے حوالے کر سکتا ہوں اور اگر تمہاری مرضی ہو تو میں اس کے سب کام پورے کر دوں گا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3828  
3828. حضرت اسماء بنت ابی بکر‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے زید بن عمرو بن نفیل کو کعبہ مکرمہ سے اپنی پشت لگائے کھڑے دیکھا، وہ کہتے تھے: اے قریش کے لوگو! اللہ کی قسم! میرے علاوہ تم میں سے کوئی بھی دین ابراہیم پر نہیں ہے۔ وہ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے منع کرتے تھے۔ جب کوئی شخص اپنی لڑکی کو قتل کرنا چاہتا تو اسے کہتے: اسے قتل نہ کر میں اس کا کفیل ہوں اور اس کا تمام خرچہ برداشت کرتا ہوں اور اسے لے لیتے۔ پھر جب وہ جوان ہو جاتی تو اس کے باپ سے کہتے: اگر تو چاہتا ہے تو میں اسے تیرے حوالے کر دیتا ہوں اور اگر تو چاہتا ہے تو میں (اس کے نکاح پر اٹھنے والا) خرچہ برداشت کرتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3828]
حدیث حاشیہ:
بزار اور طبرانی نے یوں روایت کیا ہے کہ زید اور ورقہ دونوں دین حق کی تلاش میں شام کے ملک گئے، ورقہ تو وہاں جا کرعیسائی ہو گیا اور زید کو یہ دین پسند نہیں آیا، پھرموصل میں آئے وہاں ایک پادری سے ملے جس نے دین نصرانی ان پر پیش کیا لیکن زید نے نہ مانا، اسی روایت میں یہ ہے کہ سعید بن زید ؓ اور حضرت عمرؓ نے آنحضرت ﷺ سے زید کا حال پوچھا آپ ﷺ نے فرمایا اللہ نے اس کو بخش دیا اور اس پر رحم کیا اور وہ دین ابراہیم ؑ پر فوت ہوا، زید کا نسب نامہ یہ ہے زید بن عمرو بن نفیل بن عبدالعزی بن باح بن عبداللہ الخ یہ بزرگ بعثت نبوی سے پہلے ہی انتقال کر گئے تھے، ان کے صاحبزادے سعید نامی نے اسلام قبول کیا جو عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، روایت میں مشرکین مکہ کا انصاب پر ذبیحہ کا ذکر آیا ہے اس سے وہ پتھرمراد ہیں جو کعبہ کے گرد لگے ہوئے تھے اور ان پر مشرکین اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے، آنحضرت ﷺ کے دسترخوان پر حاضری دینے سے زید نے اس لیے انکارکیا کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کو بھی قریش کا ایک فرد سمجھ کر گمان کرلیا کہ شاید دسترخوان پر تھانوں کا ذبیحہ پکایا گیا ہو اور وہ غیراللہ کے مذبوحہ جانور کاگوشت نہیں کھایا کرتے تھے، جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے، رسول کریم ﷺ پیدائش کے دن ہی سے معصوم تھے اور یہ ناممکن تھا کہ آپ ﷺ نبوت سے پہلے قریش کے افعال شرکیہ میں شریک ہوتے ہوں، لہذا زید کا گمان آنحضرت ﷺ کے بارے میں صحیح نہ تھا، فاکہی نے عامربن ربیعہ سے نکالا، مجھ سے زید نے یہ کہا کہ میں نے اپنی قوم کے برخلاف اسماعیل اور ابراہیم ؑ کے دین کی پیروی کی ہے اور میں اس پیغمبرکا منتظرہوں جو آل اسماعیل میں پیدا ہو گا لیکن امید نہیں کہ میں اس کا زمانہ پاؤں مگرمیں اس پر ایمان لایا میں اس کی تصدیق کرتا ہوں اس کے برحق پیغمبرہونے کی گواہی دیتا ہوں اگرتو زندہ رہے اور اس رسول کو پائے تو میرا سلام پہنچا دیجیؤ، عامرؓ کہتے کہ جب میں مسلمان ہوا تو میں نے ان کا سلام آنحضرت ﷺ کو پہنچایا آپ ﷺ نے جواب میں وعلیه السلام فرمایا اور فرمایا میں نے اس کو بہشت میں کپڑا گھسیٹتے ہوئے دیکھا ہے زید مرحوم نے عربوں میں لڑکیوں کو زندہ درگور کر دینے کی رسم کی بھی مخالفت کی جیسا کہ روایت کے آخرمیں درج ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3828   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3828  
3828. حضرت اسماء بنت ابی بکر‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے زید بن عمرو بن نفیل کو کعبہ مکرمہ سے اپنی پشت لگائے کھڑے دیکھا، وہ کہتے تھے: اے قریش کے لوگو! اللہ کی قسم! میرے علاوہ تم میں سے کوئی بھی دین ابراہیم پر نہیں ہے۔ وہ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے منع کرتے تھے۔ جب کوئی شخص اپنی لڑکی کو قتل کرنا چاہتا تو اسے کہتے: اسے قتل نہ کر میں اس کا کفیل ہوں اور اس کا تمام خرچہ برداشت کرتا ہوں اور اسے لے لیتے۔ پھر جب وہ جوان ہو جاتی تو اس کے باپ سے کہتے: اگر تو چاہتا ہے تو میں اسے تیرے حوالے کر دیتا ہوں اور اگر تو چاہتا ہے تو میں (اس کے نکاح پر اٹھنے والا) خرچہ برداشت کرتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3828]
حدیث حاشیہ:

وہ قریش کوڈانٹتے تھے کہ ملت ابراہیمی کا دعویٰ کرتے ہو لیکن اس پر عمل نہیں کرتے بلکہ شرک میں مبتلا ہو۔

یہ معلوم نہ ہوسکا کہ انھیں دین ابراہیم کہاں سے ملا۔
بہرحال وہ بت پرستی سے بیزار تھے اوردین ابراہیم کی حقانیت کا اعتقاد رکھتے تھے اس لیے دین ابراہیم کی طرف خود کو منسوب کیا۔

عرب میں مصنوعی غیرت اور بھوک کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کوزندہ درگور کرنے کا رواج تھا۔
قرآن کریم نے اس رسم بد کا بڑی سختی سے نوٹس لیا ہے۔
حضرت زسید بن عمرو بن نفیل نے اس رسم کے خلاف تحریک چلائی کہ تم لوگ مفلسی کے موہوم اندیشے سے لڑکیوں کو قتل کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ کورازق نہیں مانتے ہو۔
وہ ایسی لڑکیوں کی خود کفالت کرتے۔
جب وہ جوان ہوجاتیں تو ان کے والدین کے حوالے کردیتے یا ان کی اجازت سے ان کی شادی کا بندوبست کرتے تھے۔

بہرحال زید بن عمرو ب نفیل دین ابراہیم کے علمبردار تھے۔
انھیں بتوں سے سخت نفرت تھی۔
عربوں کی رسومات بد کا سختی سے انکار کرتے تھے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3828