صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ -- کتاب: انصار کے مناقب
26. بَابُ أَيَّامِ الْجَاهِلِيَّةِ:
باب: جاہلیت کے زمانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3832
حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَانُوا يَرَوْنَ أَنَّ الْعُمْرَةَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ مِنَ الْفُجُورِ فِي الْأَرْضِ , وَكَانُوا يُسَمُّونَ الْمُحَرَّمَ صَفَرًا، وَيَقُولُونَ: إِذَا بَرَا الدَّبَرْ وَعَفَا الْأَثَرْ حَلَّتِ الْعُمْرَةُ لِمَنِ اعْتَمَرْ، قَالَ: فَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ رَابِعَةً مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ , وَأَمَرَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الْحِلِّ، قَالَ:" الْحِلُّ كُلُّهُ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا بہت بڑا گناہ خیال کرتے تھے۔ وہ محرم کو صفر کہتے۔ ان کے ہاں یہ مثل تھی کہ اونٹ کی پیٹھ کا زخم جب اچھا ہونے لگے اور (حاجیوں کے) نشانات قدم مٹ چکیں تو اب عمرہ کرنے والوں کا عمرہ جائز ہوا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ ذی الحجہ کی چوتھی تاریخ کو حج کا احرام باندھے ہوئے (مکہ) تشریف لائے تو آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ اپنے حج کو عمرہ کر ڈالیں (طواف اور سعی کر کے احرام کھول دیں)۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! (اس عمرہ اور حج کے دوران میں) کیا چیزیں حلال ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام چیزیں! جو احرام کے نہ ہونے کی حالت میں حلال تھیں وہ سب حلال ہو جائیں گی۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1804  
´حج قران کا بیان۔`
مسلم قری سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کا تلبیہ پکارا اور آپ کے صحابہ کرام نے حج کا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1804]
1804. اردو حاشیہ: حج قران کے لیے تلبیہ میں یہ جائز ہے کہ کسی وقت «لبیک بحجة» ‏‏‏‏ کہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1804   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3832  
3832. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا زمین پر بہت بڑا گناہ ہے۔ اور وہ محرم کو صفر کہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ جب اونٹ کی پشت کا زخم اچھا ہو جائے اور اس کا نشان جاتا رہے تو عمرہ کرنے والے کے لیے عمرہ کرنا حلال ہو جاتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ نے چار (4) ذوالحجہ کو احرام باندھا اور نبی ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اسے عمرہ کے احرام میں بدل لیں تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کون کون سی چیز ہمارے لیے حلال ہو گئی؟ آپ نے فرمایا: ہر چیز حلال ہو گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3832]
حدیث حاشیہ:

حج کے احرام کے لیے مقرر ہ مہینے شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے پہلے نو دن ہیں۔
ان کے علاوہ دنوں میں عمرے کا احرام تو باندھا جا سکتا ہے لیکن حج کا احرام نہیں باندھا جا سکتا۔

دور جاہلیت میں لوگ حج کے مہینوں میں عمرے کا احرام باندھنا بہت بڑا گناہ سمجھتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس رسم بد کو ختم کرنے کے لیے ان دنوں میں حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں تبدیل کرنے کا حکم دیا۔

اہل جاہلیت کا طریقہ تھا کہ دوران حج میں استعمال ہونے والے اونٹوں کے زخم اچھے ہو جائیں تو پھر عمرہ کرنا چاہیے اور ان زخموں کے نشانات ماہ صفر گزر جانے کے بعد مٹتے تھے اس سے پہلے وہ عمرہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتے تھے اس کے لیے مہینوں میں تقدیم و تاخیر بھی کرتے تھے اس ناروا زیادتی کو ختم کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے مذکورہ ہدایت فرمائی عمرے سے فراغت کے بعد فرمایا:
احرام کے باعث جو چیز یں تم پر حرام ہوئی تھی وہ سب حلال ہیں۔
مشرکین کی تردید کے لیے آپ نے ان دنوں عمرے کا احرام باندھنے کا حکم دیا۔

بہر حال دور جاہلیت کے جو کام قابل اصلاح تھے ان کی اصلاح کرنے کے بعد انھیں برقرار رکھا گیا۔
انھیں یکسرختم نہیں کیا البتہ جو کام اللہ سے بغاوت پر مبنی تھے انھیں یکسر ختم کردیا گیا مثلاً:
لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا اور سود لینا دینا وغیرہ۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3832