صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ -- کتاب: انصار کے مناقب
27. بَابُ الْقَسَامَةُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ:
باب: زمانہ جاہلیت کی قسامت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3837
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ حَدَّثَهُ، أَنَّ الْقَاسِمَ كَانَ يَمْشِي بَيْنَ يَدَيِ الْجَنَازَةِ وَلَا يَقُومُ لَهَا وَيُخْبِرُ، عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَقُومُونَ لَهَا، يَقُولُونَ: إِذَا رَأَوْهَا كُنْتِ فِي أَهْلِكِ مَا أَنْتِ مَرَّتَيْنِ".
مجھ سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا کہ ان کے والد قاسم بن محمد جنازہ کے آگے آگے چلا کرتے تھے اور جنازہ کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے وہ بیان کرتے تھے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ جنازہ کے لیے کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور اسے دیکھ کر دو بار کہتے تھے کہ اے مرنے والے جس طرح اپنی زندگی میں تو اپنے گھر والوں کے ساتھ تھا اب ویسا ہی کسی پرندے کے بھیس میں ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3837  
3837. حضرت عبدالرحمٰن بن قاسم سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت قاسم جنازے کے آگے آگے چلتے تھے اور اسے دیکھ کر کھڑے نہ ہوتے تھے۔ اور وہ حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ے حوالے سے خبر دیتے تھے کہ اہل جاہلیت جب جنازے کو دیکھتے تو اس کے لیے کھڑے ہو جاتے اور دو مرتبہ کہا کرتے تھے: تو وہی ہے جو اپنے اہل کے پاس تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3837]
حدیث حاشیہ:
جاہلیت والے اگلے جنم کے قائل تھے وہ کہتے تھے آدمی کی روح مرتے ہی کسی پرند ے کے بھیس میں چلی جاتی ہے اگر اچھا آدمی تھا تو اچھے پرندے کی شکل لیتی ہے جیسے کبوتر وغیرہ اور اگر آدمی برا تھا تو برے کی مثلا الو، کوا وغیر ہ۔
بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے تو اپنے گھر والوں میں تو اچھا شریف آدمی تھا اب بتلا کس جنم میں ہے۔
بعض نے ترجمہ یوں کیا ہے تو اپنے گھر والوں میں تھا لیکن دوبار تو ان میں نہیں رہ سکتا یعنی حشر ہونے والانہیں۔
جیسے مشرکوں کا اعتقاد تھاکہ ایک ہی زندگی ہے دنیا کی زندگی اوروہ آخرت کے قائل نہ تھے۔
قوله کنت في أھلك ما أنت مرتین أي یقولون ذلك مرتین وما موصلة وبعض الصلة محذوف والتقدیر أنت في أھلك الذي کنت فیه أي الذي أنت فیه إلاٰن کنت في الحیاة مثله لأنهم کانوا لایؤمنون بالبعث ولکن کا نوا یعتقدون الروح إذاخرجت تطیر طیرا فإن کان من أھل الخیر کان روحه من صالح الطیر وإلا بالعکس، خلاصہ مضمون وہی ہے جو اوپر گذر چکا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3837   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3837  
3837. حضرت عبدالرحمٰن بن قاسم سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت قاسم جنازے کے آگے آگے چلتے تھے اور اسے دیکھ کر کھڑے نہ ہوتے تھے۔ اور وہ حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ے حوالے سے خبر دیتے تھے کہ اہل جاہلیت جب جنازے کو دیکھتے تو اس کے لیے کھڑے ہو جاتے اور دو مرتبہ کہا کرتے تھے: تو وہی ہے جو اپنے اہل کے پاس تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3837]
حدیث حاشیہ:
زمانہ جاہلیت میں لوگ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کے قائل نہ تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ مرنے کے بعد جب روح نکلتی ہے تو نیک آدمی کی روح کسی اچھے پرندے کی شکل اختیار کر لیتی ہے جیسے کبوتر وغیرہ اور برے آدمی کی روح کسی گندے اور برے پرندے کا بھیس بدل لیتی ہے مثلاً:
الواورکوا وغیرہ اسے وہ صدی یا ہام سے تعبیر کرتے تھے۔
حدیث کے آخری الفاظ اس عقیدے کی نشاندہی کرتے ہیں یعنی تیرا وہی حال ہے جو زندگی میں تھا اگر اس وقت اچھا تھا تو اب بھی اچھا ہوگا اگر اس وقت برا تھا تواب بھی برا ہو گا۔
بہر حال اس حدیث میں دور جاہلیت کا ایک طریقہ بیان ہوا ہے جو مُردوں سے متعلق تھا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3837