صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ -- کتاب: انصار کے مناقب
27. بَابُ الْقَسَامَةُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ:
باب: زمانہ جاہلیت کی قسامت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3845
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا قَطَنٌ أَبُو الْهَيْثَمِ، حَدَّثَنَا أَبُو يَزِيدَ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" إِنَّ أَوَّلَ قَسَامَةٍ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ لَفِينَا بَنِي هَاشِمٍ كَانَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ اسْتَأْجَرَهُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ فَخِذٍ أُخْرَى , فَانْطَلَقَ مَعَهُ فِي إِبِلِهِ , فَمَرَّ رَجُلٌ بِهِ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ قَدِ انْقَطَعَتْ عُرْوَةُ جُوَالِقِهِ، فَقَالَ: أَغِثْنِي بِعِقَالٍ أَشُدُّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِي لَا تَنْفِرُ الْإِبِلُ , فَأَعْطَاهُ عِقَالًا فَشَدَّ بِهِ عُرْوَةَ جُوَالِقِهِ , فَلَمَّا نَزَلُوا عُقِلَتِ الْإِبِلُ إِلَّا بَعِيرًا وَاحِدًا، فَقَالَ الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ: مَا شَأْنُ هَذَا الْبَعِيرِ لَمْ يُعْقَلْ مِنْ بَيْنِ الْإِبِلِ، قَالَ: لَيْسَ لَهُ عِقَالٌ، قَالَ: فَأَيْنَ عِقَالُهُ؟ قَالَ: فَحَذَفَهُ بِعَصًا كَانَ فِيهَا أَجَلُهُ فَمَرَّ بِهِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، فَقَالَ: أَتَشْهَدُ الْمَوْسِمَ؟ قَالَ: مَا أَشْهَدُ وَرُبَّمَا شَهِدْتُهُ، قَالَ: هَلْ أَنْتَ مُبْلِغٌ عَنِّي رِسَالَةً مَرَّةً مِنَ الدَّهْرِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَتَبَ إِذَا أَنْتَ شَهِدْتَ الْمَوْسِمَ فَنَادِ يَا آلَ قُرَيْشٍ فَإِذَا أَجَابُوكَ فَنَادِ يَا آلَ بَنِي هَاشِمٍ فَإِنْ أَجَابُوكَ فَسَلْ عَنْ أَبِي طَالِبٍ فَأَخْبِرْهُ أَنَّ فُلَانًا قَتَلَنِي فِي عِقَالٍ وَمَاتَ الْمُسْتَأْجَرُ , فَلَمَّا قَدِمَ الَّذِي اسْتَأْجَرَهُ أَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ، فَقَالَ: مَا فَعَلَ صَاحِبُنَا؟ قَالَ: مَرِضَ فَأَحْسَنْتُ الْقِيَامَ عَلَيْهِ فَوَلِيتُ دَفْنَهُ، قَالَ: قَدْ كَانَ أَهْلَ ذَاكَ مِنْكَ فَمَكُثَ حِينًا , ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ الَّذِي أَوْصَى إِلَيْهِ أَنْ يُبْلِغَ عَنْهُ وَافَى الْمَوْسِمَ، فَقَالَ: يَا آلَ قُرَيْشٍ، قَالُوا: هَذِهِ قُرَيْشٌ، قَالَ: يَا آلَ بَنِي هَاشِمٍ، قَالُوا: هَذِهِ بَنُو هَاشِمٍ، قَالَ: أَيْنَ أَبُو طَالِبٍ؟ قَالُوا: هَذَا أَبُو طَالِبٍ، قَالَ: أَمَرَنِي فُلَانٌ أَنْ أُبْلِغَكَ رِسَالَةً أَنَّ فُلَانًا قَتَلَهُ فِي عِقَالٍ , فَأَتَاهُ أَبُو طَالِبٍ، فَقَالَ: لَهُ اخْتَرْ مِنَّا إِحْدَى ثَلَاثٍ إِنْ شِئْتَ أَنْ تُؤَدِّيَ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ فَإِنَّكَ قَتَلْتَ صَاحِبَنَا وَإِنْ شِئْتَ حَلَفَ خَمْسُونَ مِنْ قَوْمِكَ إِنَّكَ لَمْ تَقْتُلْهُ , فَإِنْ أَبَيْتَ قَتَلْنَاكَ بِهِ فَأَتَى قَوْمَهُ، فَقَالُوا: نَحْلِفُ , فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ كَانَتْ تَحْتَ رَجُلٍ مِنْهُمْ قَدْ وَلَدَتْ لَهُ، فَقَالَتْ: يَا أَبَا طَالِبٍ أُحِبُّ أَنْ تُجِيزَ ابْنِي هَذَا بِرَجُلٍ مِنَ الْخَمْسِينَ وَلَا تُصْبِرْ يَمِينَهُ حَيْثُ تُصْبَرُ الْأَيْمَانُ , فَفَعَلَ , فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَقَالَ: يَا أَبَا طَالِبٍ أَرَدْتَ خَمْسِينَ رَجُلًا أَنْ يَحْلِفُوا مَكَانَ مِائَةٍ مِنَ الْإِبِلِ يُصِيبُ كُلَّ رَجُلٍ بَعِيرَانِ , هَذَانِ بَعِيرَانِ فَاقْبَلْهُمَا عَنِّي وَلَا تُصْبِرْ يَمِينِي حَيْثُ تُصْبَرُ الْأَيْمَانُ , فَقَبِلَهُمَا وَجَاءَ ثَمَانِيَةٌ وَأَرْبَعُونَ فَحَلَفُوا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا حَالَ الْحَوْلُ وَمِنَ الثَّمَانِيَةِ وَأَرْبَعِينَ عَيْنٌ تَطْرِفُ".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے قطن ابوالہیثم نے کہا، ہم سے ابویزید مدنی نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا جاہلیت میں سب سے پہلا قسامہ ہمارے ہی قبیلہ بنو ہاشم میں ہوا تھا، بنو ہاشم کے ایک شخص عمرو بن علقمہ کو قریش کے کسی دوسرے خاندان کے ایک شخص (خداش بن عبداللہ عامری) نے نوکری پر رکھا، اب یہ ہاشمی نوکر اپنے صاحب کے ساتھ اس کے اونٹ لے کر شام کی طرف چلا وہاں کہیں اس نوکر کے پاس سے ایک دوسرا ہاشمی شخص گزرا، اس کی بوری کا بندھن ٹوٹ گیا تھا۔ اس نے اپنے نوکر بھائی سے التجا کی میری مدد کر اونٹ باندھنے کی مجھے ایک رسی دیدے، میں اس سے اپنا تھیلا باندھوں اگر رسی نہ ہو گی تو وہ بھاگ تھوڑے جائے گا۔ اس نے ایک رسی اسے دے دی اور اس نے اپنی بوری کا منہ اس سے باندھ لیا (اور چلا گیا)۔ پھر جب اس نوکر اور صاحب نے ایک منزل پر پڑاؤ کیا تو تمام اونٹ باندھے گئے لیکن ایک اونٹ کھلا رہا۔ جس صاحب نے ہاشمی کو نوکری پر اپنے ساتھ رکھا تھا اس نے پوچھا سب اونٹ تو باندھے، یہ اونٹ کیوں نہیں باندھا گیا کیا بات ہے؟ نوکر نے کہا اس کی رسی موجود نہیں ہے۔ صاحب نے پوچھا کیا ہوا اس کی رسی؟ اور غصہ میں آ کر ایک لکڑی اس پر پھینک ماری اس کی موت آن پہنچی۔ اس کے (مرنے سے پہلے) وہاں سے ایک یمنی شخص گزر رہا تھا۔ ہاشمی نوکر نے پوچھا کیا حج کے لیے ہر سال تم مکہ جاتے ہو؟ اس نے کہا ابھی تو ارادہ نہیں ہے لیکن میں کبھی جاتا رہتا ہوں۔ اس نوکر نے کہا جب بھی تم مکہ پہنچو کیا میرا ایک پیغام پہنچا دو گے؟ اس نے کہا ہاں پہنچا دوں گا۔ اس نوکر نے کہا کہ جب بھی تم حج کے لیے جاؤ تو پکارنا: اے قریش کے لوگو! جب وہ تمہارے پاس جمع ہو جائیں تو پکارنا: اے بنی ہاشم! جب وہ تمہارے پاس آ جائیں تو ان سے ابوطالب پوچھنا اور انہیں بتلانا کہ فلاں شخص نے مجھے ایک رسی کے لیے قتل کر دیا۔ اس وصیت کے بعد وہ نوکر مر گیا، پھر جب اس کا صاحب مکہ آیا تو ابوطالب کے یہاں بھی گیا۔ جناب ابوطالب نے دریافت کیا ہمارے قبیلہ کے جس شخص کو تم اپنے ساتھ نوکری کے لیے لے گئے تھے اس کا کیا ہوا؟ اس نے کہا کہ وہ بیمار ہو گیا تھا میں نے خدمت کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی (لیکن وہ مر گیا تو) میں نے اسے دفن کر دیا۔ ابوطالب نے کہا کہ اس کے لیے تمہاری طرف سے یہی ہونا چاہئے تھا۔ ایک مدت کے بعد وہی یمنی شخص جسے ہاشمی نوکر نے پیغام پہنچانے کی وصیت کی تھی، موسم حج میں آیا اور آواز دی: اے قریش کے لوگو! لوگوں نے بتا دیا کہ یہاں ہیں قریش اس نے آواز دی، اے بنو ہاشم! لوگوں نے بتایا کہ بنو ہاشم یہ ہیں اس نے پوچھا ابوطالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے بتایا تو اس نے کہا کہ فلاں شخص نے مجھے ایک پیغام پہنچانے کے لیے کہا تھا کہ فلاں شخص نے اسے ایک رسی کی وجہ سے قتل کر دیا ہے۔ اب جناب ابوطالب اس صاحب کے یہاں آئے اور کہا کہ ان تین چیزوں میں سے کوئی چیز پسند کر لو اگر تم چاہو تو سو اونٹ دیت میں دے دو کیونکہ تم نے ہمارے قبیلہ کے آدمی کو قتل کیا ہے اور اگر چاہو تو تمہاری قوم کے پچاس آدمی اس کی قسم کھا لیں کہ تم نے اسے قتل نہیں کیا۔ اگر تم اس پر تیار نہیں تو ہم تمہیں اس کے بدلے میں قتل کر دیں گے۔ وہ شخص اپنی قوم کے پاس آیا تو وہ اس کے لیے تیار ہو گئے کہ ہم قسم کھا لیں گے۔ پھر بنو ہاشم کی ایک عورت ابوطالب کے پاس آئی جو اسی قبیلہ کے ایک شخص سے بیاہی ہوئی تھی اور اپنے اس شوہر سے اس کا بچہ بھی تھا۔ اس نے کہا: اے ابوطالب! آپ مہربانی کریں اور میرے اس لڑکے کو ان پچاس آدمیوں میں معاف کر دیں اور جہاں قسمیں لی جاتی ہیں (یعنی رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان) اس سے وہاں قسم نہ لیں۔ ابوطالب نے اسے معاف کر دیا۔ اس کے بعد ان میں کا ایک اور شخص آیا اور کہا: اے ابوطالب! آپ نے سو اونٹوں کی جگہ پچاس آدمیوں سے قسم طلب کی ہے، اس طرح ہر شخص پر دو دو اونٹ پڑتے ہیں۔ یہ دو اونٹ میری طرف سے آپ قبول کر لیں اور مجھے اس مقام پر قسم کھانے کے لیے مجبور نہ کریں جہاں قسم لی جاتی ہے۔ ابوطالب نے اسے بھی منظور کر لیا۔ اس کے بعد بقیہ جو اڑتالیس آدمی آئے اور انہوں نے قسم کھائی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ابھی اس واقعہ کو پورا سال بھی نہیں گزرا تھا کہ ان اڑتالیس آدمیوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں رہا جو آنکھ ہلاتا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3845  
3845. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ دور جاہلیت میں سب سے پہلا قسامت کا واقعہ ہمارے قبیلے بنو ہاشم میں ہوا تھا۔ بنو ہاشم کے ایک شخص کو قریش کی دوسری شاخ کے ایک شخص نے اجرت پر رکھا۔ اب یہ ہاشمی نوکر اپنے صاحب کے ساتھ اس کے اونٹ لے کر روانہ ہوا۔ راستے میں اس نوکر کے پاس سے ایک دوسرا ہاشمی شخص گزرا جس کی بوری کا بندھن ٹوٹ گیا تھا۔ اس نے کہا کہ مجھے رسی دے دو جس کے ساتھ میں بوری کا منہ باندھ دوں تاکہ اونٹ (بدک کر) بھاگ نہ جائیں۔ اس نے اسے رسی دے دی جس کے ساتھ اس شخص نے اپنی بوری کا منہ باندھ لیا۔ جب انہوں نے ایک جگہ پڑاؤ کیا تو ایک اونٹ کے علاوہ سب اونٹوں کو باندھ دیا گیا۔ جس شخص نے ہاشمی کو نوکر رکھا تھا اس نے کہا: اس اونٹ کا کیا حال ہے کہ اسے دوسرے اونٹوں کی طرح باندھا نہیں گیا؟ ہاشمی نے کہا: اس کی رسی نہیں ہے۔ اس شخص نے کہا: تو اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3845]
حدیث حاشیہ:
یعنی کوئی زندہ نہ رہا، سب مر گئے۔
جھوٹی قسم کھانے کی یہ سزا ان کو ملی اور وہ بھی کعبہ کے پاس معاذ اللہ۔
دوسری روایت میں ہے کہ ان سب کی زمین جائداد حضرت حويطب کو ملی جس کی ماں کے کہنے سے ابو طالب نے ا س کی قسم معاف کردی تھی، گو ابن عباس ؓ اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے مگر انہوں نے یہ واقعہ معتبر لوگوں سے سنا جب ہی اس پر قسم کھائی۔
فاکہی نے ابن ابی نجیح کے طریق سے نکالا کہ کچھ لوگوں نے خانہ کعبہ کے پاس ایک قسامہ میں جھوٹی قسمیں کھائیں پھر ایک پہاڑ کے تلے جاکر ٹھہرے ایک پتھر ان پر گرا جس سے دب کر سب مرگئے جھوٹی قسمیں کھانا پھر بعض لوگوں کا ان قسموں کے لیے قرآن پاک اور مساجد کو استعمال کر نا بے حد خطرناک ہے، کتنے لوگ آج بھی ایسے دیکھے گئے کہ انہوں نے یہ حرکت کی اور نتیجہ میں وہ تباہ وبرباد ہوگئے۔
لہٰذ کسی بھی مسلمان کو ایسی جھوٹی قسم کھانے سے قطعاً پر ہیز کرنا لازم ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3845   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3845  
3845. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ دور جاہلیت میں سب سے پہلا قسامت کا واقعہ ہمارے قبیلے بنو ہاشم میں ہوا تھا۔ بنو ہاشم کے ایک شخص کو قریش کی دوسری شاخ کے ایک شخص نے اجرت پر رکھا۔ اب یہ ہاشمی نوکر اپنے صاحب کے ساتھ اس کے اونٹ لے کر روانہ ہوا۔ راستے میں اس نوکر کے پاس سے ایک دوسرا ہاشمی شخص گزرا جس کی بوری کا بندھن ٹوٹ گیا تھا۔ اس نے کہا کہ مجھے رسی دے دو جس کے ساتھ میں بوری کا منہ باندھ دوں تاکہ اونٹ (بدک کر) بھاگ نہ جائیں۔ اس نے اسے رسی دے دی جس کے ساتھ اس شخص نے اپنی بوری کا منہ باندھ لیا۔ جب انہوں نے ایک جگہ پڑاؤ کیا تو ایک اونٹ کے علاوہ سب اونٹوں کو باندھ دیا گیا۔ جس شخص نے ہاشمی کو نوکر رکھا تھا اس نے کہا: اس اونٹ کا کیا حال ہے کہ اسے دوسرے اونٹوں کی طرح باندھا نہیں گیا؟ ہاشمی نے کہا: اس کی رسی نہیں ہے۔ اس شخص نے کہا: تو اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3845]
حدیث حاشیہ:

قسامت کے احکام ومسائل ہم کتاب الدیات میں بیان کریں گے۔
بہر حال قسامت امور جاہلیہ میں سے ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اسے بلا ترمیم و اضافہ برقرار رکھا بلکہ اپنے عہد مبارک میں اس پر عمل بھی کیا لیکن دیت اپنی طرف سے دے دی تاکہ مقتول کا خون ضائع نہ ہو۔
(صحیح البخاري، الدیات، حدیث: 6898)

مذکورہ واقعے میں قسم دینے والوں نے مقام ابراہیم اور حجراسود کے درمیان کھڑے ہو کر قسمیں اٹھائیں۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں دنیا میں سزادی کہ ان میں سے کوئی بھی بچ نہ سکا۔

حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ کچھ لوگوں نے خانہ کعبہ میں قسامت کے طور پر قسمیں اٹھائیں پھر وہ ایک پہاڑ کے نیچے جا کر ٹھہرے تو ایک پتھر اوپر سے گرا جس سے دب کر سب مر گئے۔
جھوٹی قسم اٹھانا پھر اس کام کے لیے مساجد کو استعمال کرنا بے حد خطرناک ہے۔
کتنے لوگ آج بھی دیکھے جاتے ہیں کہ انھوں نے یہ حرکت کی، پھر وہ تباہ و برباد ہوگئے، لہٰذا ہر مسلمان کو اس طرح کے اقدام سے بچنا چاہیے۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ مرنے والوں کی تمام جائیداد حویطب کو ملی جس کی ماں کے کہنے سے ابو طالب نے اسے قسم دینے سے مستثنیٰ کردیا تھا اس لیے مکہ مکرمہ میں سب سے زیادہ صاحب جائیداد حویطب ہی تھا۔
حضرت ابن عباس ؓ اگرچہ اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے جب یہ واقعہ پیش آیا تاہم انھوں نے یہ واقعہ معتبر لوگوں سے سنا اور بیان کیا۔
(فتح الباري: 199/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3845