صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ -- کتاب: انصار کے مناقب
29. بَابُ مَا لَقِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ بِمَكَّةَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مکہ میں مشرکین کے ہاتھوں جن مشکلات کا سامنا کیا ان کا بیان۔
حدیث نمبر: 3855
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، أَوْ قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَكَمُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: أَمَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبْزَى، قَالَ: سَلْ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ هَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ مَا أَمْرُهُمَا وَلا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ سورة الأنعام آية 151 ,وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا سورة النساء آية 93 فَسَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ:" لَمَّا أُنْزِلَتِ الَّتِي فِي الْفُرْقَانِ"، قَالَ: مُشْرِكُو أَهْلِ مَكَّةَ فَقَدْ قَتَلْنَا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ , وَدَعَوْنَا مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ , وَقَدْ أَتَيْنَا الْفَوَاحِشَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: إِلا مَنْ تَابَ وَآمَنَ سورة مريم آية 60 الْآيَةَ , فَهَذِهِ لِأُولَئِكَ , وَأَمَّا الَّتِي فِي النِّسَاءِ: الرَّجُلُ إِذَا عَرَفَ الْإِسْلَامَ وَشَرَائِعَهُ ثُمَّ قَتَلَ , فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ , فَذَكَرْتُهُ لِمُجَاهِدٍ، فَقَالَ:" إِلَّا مَنْ نَدِمَ".
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، کہا مجھ سے سعید بن جبیر نے بیان کیا یا (منصور نے) اس طرح بیان کیا کہ مجھ سے حکم نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ مجھ سے عبدالرحمٰن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ان دونوں آیتوں کے متعلق پوچھو کہ ان میں مطابقت کس طرح پیدا کی جائے (ایک آیت «ولا تقتلوا النفس التي حرم الله» اور دوسری آیت «ومن يقتل مؤمنا متعمدا‏» ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے میں نے پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ جب سورۃ الفرقان کی آیت نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے کہا ہم نے تو ان جانوں کا بھی خون کیا ہے جن کے قتل کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا تھا ہم اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کی عبادت بھی کرتے رہے ہیں اور بدکاریوں کا بھی ہم نے ارتکاب کیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی «إلا من تاب وآمن‏» وہ لوگ اس حکم سے الگ ہیں جو توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں تو یہ آیت ان کے حق میں نہیں ہے لیکن سورۃ النساء کی آیت اس شخص کے بارے میں ہے جو اسلام اور شرائع اسلام کے احکام جان کر بھی کسی کو قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے۔ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس ارشاد کا ذکر مجاہد سے کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ لوگ اس حکم سے الگ ہیں جو توبہ کر لیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3855  
3855. حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے عبدالرحمٰن بن ابزی نے فرمایا کہ تم حضرت ابن عباس ؓ سے ان دونوں آیات میں مطابقت کے متعلق سوال کرو: اس جان کو قتل نہ کرو جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے۔ دوسری آیت: جس نے کسی مسلمان کو دانستہ قتل کیا اس کی سزا جہنم ہے۔ چنانچہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: جب سورہ فرقان کی آیت نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے کہا: ہم نے ان جانوں کا بھی خون کیا ہے جنہیں اللہ تعالٰی نے حرم قرار دیا تھا۔ ہم تو اللہ کے سوا دوسرے معبودان باطلہ کی عبادت بھی کرتے رہے ہیں اور بدکاریوں کا بھی ہم نے ارتکاب کیا ہے تو اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی کہ جو لوگ توبہ کر لیں اور ایمان لائیں تو وہ اس حکم میں شامل نہیں ہیں، یعنی یہ آیت مشرکین مکہ کے لیے ہے۔ اور جو آیت سورہ نساء میں ہے وہ اس شخص کے لیے ہے جو اسلام اور اس کے حکم کو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3855]
حدیث حاشیہ:
سورۃ فرقان کی آیت سے یہ نکلتا ہے کہ جو کوئی خون کرے لیکن پھر توبہ کرے اور نیک اعمال بجا لائے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرے گا اور سورۃ نساء کی آیت میں یہ ہے کہ جو کوئی عمدا کسی مسلمان کو قتل کرے تو اس کو ضرور سزا ملے گی ہمیشہ دوزخ میں رہے گا اللہ کا غضب اور غصہ اس پر نازل ہوگا۔
اس صورت میں دونوں آیتوں کے مضمون میں تخالف ہوا تو عبد الرحمن بن ابزیٰ ؓ نے یہی امر حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ سے معلوم کرایا ہے جو یہاں مذکور ہے، حضرت عبد اللہ بن عبا س ؓ کا مطلب یہ تھا کہ سورۃ فرقان کی آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جو کفر کی حا لت میں ناحق خون کریں پھر توبہ کریں اور مسلمان ہوجائیں تو اسلام کی وجہ سے کفر کے ناحق خون کا ان سے مواخذہ نہ ہوگا اور سورۃ النساء کی آیت اس شخص کے حق میں ہے جو مسلمان ہو کر دوسرے مسلمان کو عمدا ناحق مار ڈالے ایسے شخص کی سزا دوزخ ہے اس کی تو بہ قبول نہ ہوگی تو دونوں آیتوں میں کچھ تخالف نہ ہوا اور حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ اس سے یہ نکلتا ہے کہ مشرکوں نے مسلمانوں کوناحق مارا تھا، ان کو ستایا تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3855   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3855  
3855. حضرت سعید بن جبیر سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے عبدالرحمٰن بن ابزی نے فرمایا کہ تم حضرت ابن عباس ؓ سے ان دونوں آیات میں مطابقت کے متعلق سوال کرو: اس جان کو قتل نہ کرو جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے۔ دوسری آیت: جس نے کسی مسلمان کو دانستہ قتل کیا اس کی سزا جہنم ہے۔ چنانچہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: جب سورہ فرقان کی آیت نازل ہوئی تو مشرکین مکہ نے کہا: ہم نے ان جانوں کا بھی خون کیا ہے جنہیں اللہ تعالٰی نے حرم قرار دیا تھا۔ ہم تو اللہ کے سوا دوسرے معبودان باطلہ کی عبادت بھی کرتے رہے ہیں اور بدکاریوں کا بھی ہم نے ارتکاب کیا ہے تو اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی کہ جو لوگ توبہ کر لیں اور ایمان لائیں تو وہ اس حکم میں شامل نہیں ہیں، یعنی یہ آیت مشرکین مکہ کے لیے ہے۔ اور جو آیت سورہ نساء میں ہے وہ اس شخص کے لیے ہے جو اسلام اور اس کے حکم کو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3855]
حدیث حاشیہ:

حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ مشرکین مکہ نے کہا کہ ہم نے ایسے لوگوں کوقتل کیا ہے جن کے قتل کو اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا تھا، یعنی انھوں نے خود اس بات کااعتراف کیا کہ ہم نے مسلمانوں کواس قدر اذیتیں دیں اور تکلیفوں سے دوچار کیا کہ انھیں اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔

حدیث میں مذکور مسئلے کی وضاحت اس طرح ہے کہ سورہ فرقان میں ارشاد باری تعالیٰ سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل ناحق کے بعداگر کوئی توبہ کرلے اور نیک اعمال بجا لائے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرے گا، (الفرقان 70: 25)
جبکہ سورہ نساء کی آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو کسی مسلمان کو عمداً قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔
(النساء: 93: 4)
بظاہر ان دو آیات میں تعارض ہے حضرت ابن عباس ؓ کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلی آیت کفار کے متعلق ہے اوردوسری آیت مسلمانوں سے متعلق ہے، لہذا شان نزول کے مختلف ہونے کی وجہ سے تعارض نہ رہا۔
لیکن یہ ان کی اپنی رائے ہے جسے جمور امت نےقبول نہیں کیا اور نہ ان کے شاگرد رشیدامام بخاری ؒ ہی نے اس سے اتفاق کیا ہے۔
جمہور اہل سنت کا موقف ہے کہ سورہ نساء کا حکم وعید کے طور پر ہے تاکہ لوگ قتل کرنے سے باز رہیں، البتہ قاتل کی توبہ بھی دوسرے گناہوں کی طرح مقبول ہے۔
اس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3855