صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ -- کتاب: انصار کے مناقب
37. بَابُ هِجْرَةِ الْحَبَشَةِ:
باب: مسلمانوں کا حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3876
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا بُرَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: بَلَغَنَا مَخْرَجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ بِالْيَمَنِ فَرَكِبْنَا سَفِينَةً فَأَلْقَتْنَا سَفِينَتُنَا إِلَى النَّجَاشِيِّ بِالْحَبَشَةِ، فَوَافَقْنَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فَأَقَمْنَا مَعَهُ حَتَّى قَدِمْنَا , فَوَافَقْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَكُمْ أَنْتُمْ يَا أَهْلَ السَّفِينَةِ هِجْرَتَانِ".
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے برید بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ کی اطلاع ملی تو ہم یمن میں تھے۔ پھر ہم کشتی پر سوار ہوئے لیکن اتفاق سے ہوا نے ہماری کشتی کا رخ نجاشی کے ملک حبشہ کی طرف کر دیا۔ ہماری ملاقات وہاں جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ہوئی (جو ہجرت کر کے وہاں موجود تھے) ہم انہیں کے ساتھ وہاں ٹھہرے رہے، پھر مدینہ کا رخ کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت ملاقات ہوئی جب آپ خیبر فتح کر چکے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اے کشتی والو! دو ہجرتیں کی ہیں۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1559  
´مال غنیمت میں مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک ذمیوں کے حصہ کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اشعری قبیلہ کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خیبر آیا، جن لوگوں نے خیبر فتح کیا تھا آپ نے ان کے ساتھ ہمارے لیے بھی حصہ مقرر کیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1559]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض لوگ کہتے ہیں کہ مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے اور فتح حاصل ہونے کے بعد جو پہنچے اسے بھی حصہ دیاجائے گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1559   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2725  
´جو شخص مال غنیمت کی تقسیم کے بعد آئے اس کو حصہ نہ ملے گا۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم (حبشہ سے) آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتح خیبر کے موقع پر ملے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مال غنیمت سے) ہمارے لیے حصہ لگایا، یا ہمیں اس میں سے دیا، اور جو فتح خیبر میں موجود نہیں تھے انہیں کچھ بھی نہیں دیا سوائے ان کے جو آپ کے ساتھ حاضر اور خیبر کی فتح میں شریک تھے، البتہ ہماری کشتی والوں کو یعنی جعفر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کو ان سب کے ساتھ حصہ دیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2725]
فوائد ومسائل:
یہ عطیہ تو خمس میں سے دیا گیا تھا۔
جس کے نبی کریمﷺ خود متصرف تھے۔
یا دیگر مجاہدین کی رضا مندی سے غنیمت میں دیا گیا تھا تاکہ ان مہاجرین کی دلجوئی ہو۔
واللہ اعلم (خطابی)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2725   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3876  
3876. حضرت ابوموسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم یمن میں تھے، جب نبی ﷺ کے متعلق ہمیں پتہ چلا کہ آپ ہجرت کر کے مدینہ آ گئے ہیں۔ ہم کشتی میں سوار ہوئے تو وہ ہمیں حبشہ میں لے گئی۔ وہاں ہم نے حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ کو پایا تو ان کے ساتھ اقامت اختیار کر لی۔ پھر ہم مدینہ طیبہ آئے اور نبی ﷺ سے اس وقت ملے جب آپ نے خیبر فتح کر لیا تھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اے کشتی والو! تمہارے لیے دو ہجرتیں ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3876]
حدیث حاشیہ:
ایک مکہ سے حبش کو دوسری حبش سے مدینہ کو۔
مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ نے خیبر کے مال غنیمت میں سے ان لوگوں کو حصہ نہیں دلایا تھا جو اس لڑائی میں شریک نہ تھے مگر ہماری کشتی والوں کو حضرت جعفربن ابی طالب ؓ کے ساتھ حصہ دلا دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3876   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3876  
3876. حضرت ابوموسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم یمن میں تھے، جب نبی ﷺ کے متعلق ہمیں پتہ چلا کہ آپ ہجرت کر کے مدینہ آ گئے ہیں۔ ہم کشتی میں سوار ہوئے تو وہ ہمیں حبشہ میں لے گئی۔ وہاں ہم نے حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ کو پایا تو ان کے ساتھ اقامت اختیار کر لی۔ پھر ہم مدینہ طیبہ آئے اور نبی ﷺ سے اس وقت ملے جب آپ نے خیبر فتح کر لیا تھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اے کشتی والو! تمہارے لیے دو ہجرتیں ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3876]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے پہلے مکہ کی طرف ہجرت کی، اسلام قبول کیا تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں لوگوں کے ہمراہ حبشے کی طرف بھیج دیا وہ حبشہ جانے کے بجائے اپنی قوم کے علاقے کی طرف متوجہ ہوئے جو مشرقی جانب حبشہ کے بالمقابل ہے۔
جب انھیں خبر ملی کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لے جاچکے ہیں تو وہ اپنی قوم کے مسلمانوں کےساتھ کشتی میں سوار ہوکر مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوئے لیکن سمندری لہروں نے انھیں حبشہ پہنچا دیا تو وہ سیدنا جعفر ؓ کے ساتھ وہیں رک گئے، پھر مدینہ طیبہ اس وقت پہنچے جب خیبر فتح ہوچکا تھا۔
(فتح الباري: 237/7)

دو ہجرتیں یہ ہیں:
ایک مکہ مکرمہ سے حبشہ کی طرف اور دوسری حبشہ سے مدینہ طیبہ کی طرف اور جن لوگوں نے ہجرت حبشہ نہیں کی تھی ان کے لیے صرف ایک ہی ہجرت ہے جو مکہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہوئی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3876