مختصر صحيح مسلم
ایمان کے متعلق

ایمان کا پہلا رکن لا الٰہ الا اللہ کہنا ہے۔
حدیث نمبر: 3
سعید بن مسیب (جو مشہور تابعین میں سے ہیں) اپنے والد (سیدنا مسیب رضی اللہ عنہ بن حزن بن عمرو بن عابد بن عمران بن مخزوم قرشی مخزومی، جو کہ صحابی ہیں) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ جب ابوطالب بن عبدالمطلب (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا اور مربی) مرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور وہاں ابوجہل (عمرو بن ہشام) اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کو بیٹھا دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے چچا تم ایک کلمہ لا الٰہ الا اللہ کہہ دو، میں اللہ کے پاس اس کا گواہ رہوں گا تمہارے لئے (یعنی اللہ عزوجل سے قیامت کے روز عرض کروں گا کہ ابوطالب موحد تھے اور ان کو جہنم سے نجات ہونی چاہئے انہوں نے آخر وقت میں کلمہ توحید کا اقرار کیا تھا)۔ ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بولے کہ اے ابوطالب! عبدالمطلب کا دین چھوڑتے ہو؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر یہی بات ان سے کہتے رہے (یعنی کلمہ توحید پڑھنے کیلئے اور ادھر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ اپنی بات بکتے رہے) یہاں تک کہ ابوطالب نے اخیر بات جو کی وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں اور انکار کیا لا الٰہ الا اللہ کہنے سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں تمہارے لئے دعا کرونگا (بخشش کی) جب تک کہ منع نہ ہو۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری پیغمبر اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کیلئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں، اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں (سورۃ: التوبہ: 113) اور اللہ تعالیٰ نے ابوطالب کے بارے میں یہ آیت اتاری، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے (سورۃ: القصص: 56)۔