صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ -- کتاب: انصار کے مناقب
44. بَابُ تَزْوِيجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَائِشَةَ وَقُدُومُهَا الْمَدِينَةَ وَبِنَاؤُهُ بِهَا:
باب: عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح کرنا اور آپ کا مدینہ میں تشریف لانا اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کا بیان۔
حدیث نمبر: 3896
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" تُوُفِّيَتْ خَدِيجَةُ قَبْلَ مَخْرَجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَةِ بِثَلَاثِ سِنِينَ , فَلَبِثَ سَنَتَيْنِ أَوْ قَرِيبًا مِنْ ذَلِكَ وَنَكَحَ عَائِشَةَ وَهِيَ بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ , ثُمَّ بَنَى بِهَا وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ".
مجھ سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد (عروہ بن زبیر) نے بیان کیا کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ کو ہجرت سے تین سال پہلے ہو گئی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی وفات کے تقریباً دو سال بعد عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اس وقت ان کی عمر چھ سال تھی جب رخصتی ہوئی تو وہ نو سال کی تھیں۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3896  
3896. حضرت عروہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سیدہ خدیجہ‬ ؓ ن‬ے نبی ﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف لے جانے سے تین برس قبل وفات پائی۔ پھر آپ ﷺ دو سال یا اس کے لگ بھگ ٹھہرے (اور آپ نے کسی خاتون سے شادی نہیں کی۔ بعد ازاں) آپ نے حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے نکاح کیا جبکہ ان کی عمر چھ برس تھی، پھر ان کی رخصتی کی گئی جبکہ وہ نو برس کی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3896]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے متعلق ایک مشہور اشکال ہے کہ حضرت خدیجہ ؓ ہجرت سے تین برس پہلے فوت ہوئیں۔
اگران کی وفات کے تین سال بعد نکاح کیا ہو تو وہ ہجرت کے وقت یا اس کے بعد ہوا ہوگا، حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔
دراصل اس حدیث میں وفات خدیجہ ؓ اور نکاح عائشہ ؓ کا بیان ہے، یعنی حضرت خدیجہ ؓ کی وفات ہجرت سے تین سال پہلے ہے۔
ان کی وفات کے بعد آپ مکہ معظمہ میں دوسال یا اس سے زیادہ عرصہ ٹھہرے۔
نکاح عائشہ ؓ اور ان کی رخصتی ایک مستقل امر ہے جس کا کلام سابق سے کوئی تعلق نہیں کہ ان سے نکاح ہوا تو وہ چھ سال کی تھیں، پھرہجرت کے پہلے سال ان کی رخصتی عمل میں آئی تو وہ نوبرس کی تھیں، چنانچہ اس کی تائید علامہ اسماعیلی کی روایت سے ہوتی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ہجرت سے تین سال قبل حضرت خدیجہ ؓ کی وفات ہوئی۔
ان کی وفات کے بعد حضرت عائشہ ؓ سے نکاح ہوا جبکہ وہ چھ برس کی تھیں اور مدینہ طیبہ آنے کے بعد ان کی رخصتی ہوئی جبکہ وہ نوبرس کی تھیں۔
(فتح الباري: 281/7)
حضرت خدیجہ ؓ کے سالِ وفات اور اس بنا پر حضرت عائشہ ؓ کے نکاح کی تاریخ میں جو بھی اختلاف ہومگر اس امر پر کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نکاح کے وقت چھ برس کی اور رخصتی کے وقت نوبرس کی تھیں۔
یہی روایت حدیث کی تمام کتابوں میں ہے۔
یہ واقعہ خود حضرت عائشہ ؓ خود بیان کرتی ہیں اور ان سے سن کر حضرت عروہ بیان کرتے ہیں۔
حضرت عروہ کون ہیں؟ حضرت اسماء ؓ کے صاحبزادے جن کے سال وعمر سے حضرت عائشہ کے سال نکاح کا تعین کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، حالانکہ خود حضرت عائشہ ؓ کےلیے نوسال کی عمر میں رخصتی ہونا اتنایقینی امر ہے کہ نوبرس کی عمر کو ایک عرب لڑکی کے بلوغ کا زمانہ متعین کرتی ہیں ان کافرمان ہے کہ جب لڑکی نوبرس کی ہوجائے تو وہ عورت ہے۔
(جامع الترمذي، النکاح، حدیث: 1109)
عقلی طور پر یہ بات بعید از امکان نہیں کہ نوبرس کی لڑکی بالغ ہوسکتی ہے، چنانچہ امام شافعی ؒ کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ انھوں نے اکیس سال کی ایک نانی دیکھی تھی جسے نو سال کی عمر میں حیض آیا اور دس سال کی عمر میں اس نے ایک بیٹی کو جنم دیا۔
اس کی بیٹی کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔
(فتح الباري: 341/5۔
)

لڑکوں کے متعلق بھی یہی معاملہ ممکن ہے، چنانچہ مغیرہ بن مقسم ضمی کوفی کہتے ہیں کہ میں بارہ سال کی عمر میں بالغ ہوگیا تھا۔
(صحیح البخاري، الشھادات، باب: 18، قبل حدیث: 2664۔
)

اس طرح حضرت عمروبن عاص ؓ اور ان کے بیٹے عبداللہ بن عمرو ؓ کی عمر میں صرف بارہ سال کا فرق تھا، یعنی باپ بیتے کی عمر میں صرف بارہ سال کافرق تھا۔
(فتح الباري: 341/5۔
)

آخر میں ہمارا دعویٰ ہے کہ انتہائی معتبر، مستند اور متفقہ روایات کے مطابق چھ سال کی عمر میں حضرت عائشہ ؓ کا نکاح ہوا اور نوبرس کی عمر میں ان کی رخصتی ہوئی، نیز تمام واقعات اور سالوں کی تطبیق کے مطابق نبوت کے پانچویں سال کے آخر میں پیدا ہوئیں۔
شوال 11 نبوی میں نکاح ہوا اور شول 1ہجری میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئیں، پھر اٹھارہ سال کی عمر میں بیوگی سے دوچار ہوئیں۔
۔
۔
رضي اللہ عنھا وعن سائر المسلمین۔
۔
۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3896