مختصر صحيح مسلم
ایمان کے متعلق

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی ابتداء۔
حدیث نمبر: 73
عروہ بن زبیر سے روایت ہے اور انہیں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ پہلے پہل جو وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر شروع ہوئی وہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب سچا ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی خواب دیکھتے تو وہ صبح کی روشنی کی طرح نمودار ہوتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہائی کا شوق ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں اکیلے تشریف رکھتے، کئی کئی راتوں تک وہاں عبادت کیا کرتے اور گھر میں نہ آتے، اپنا توشہ ساتھ لے جاتے۔ پھر ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس لوٹ کر آتے اور وہ اتنا ہی اور توشہ تیار کر دیتیں یہاں تک کہ اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی توقع نہ تھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی غار حرا میں تھے کہ فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ پڑھو! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) اس فرشتے نے مجھے پکڑ کر دبوچا، اتنا کہ وہ تھک گیا یا میں تھک گیا، پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں۔ اس نے پھر مجھے پکڑا اور دبوچا یہاں تک کہ تھک گیا، پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں۔ اس نے پھر مجھے پکڑا اور دبوچا یہاں تک کہ تھک گیا، پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ! اپنے رب کے نام سے، جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ تو پڑھتا رہ، تیرا رب بڑے کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔ جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے اور گردن کے بیچ کا گوشت (ڈر اور خوف سے) پھڑک رہا تھا (چونکہ یہ وحی کا پہلا مرحلہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عادت نہ تھی، اس واسطے ہیبت چھا گئی) یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ مجھے (کپڑوں سے) ڈھانپ دو، ڈھانپ دو۔ انہوں ڈھانپ دیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ڈر جاتا رہا اس وقت ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اے خدیجہ مجھے کیا ہو گیا اور سب حال بیان کیا اور کہا کہ مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہرگز نہیں آپ خوش رہیں۔ اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہ کرے گا یا کبھی رنجیدہ نہ کرے گا۔ اللہ کی قسم آپ ناطے کو جوڑتے ہیں، سچ بولتے ہیں اور بوجھ اٹھاتے ہیں (یعنی عیال اور اطفال اور یتیم اور مسکین کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، ان کا بار اٹھاتے ہیں) اور نادار کیلئے کمائی کرتے ہیں اور مہمان کی خاطرداری کرتے ہیں اور سچی آفتوں (جیسے کوئی قرض دار یا مفلس ہو گیا یا اور کسی تباہی) میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ پھر ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور وہ ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچازاد بھائی تھے (کیونکہ ورقہ نوفل کے بیٹے تھے اور نوفل اسد کے بیٹے، اور ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا خویلد کی بیٹی تھیں اور خویلد اسد کے بیٹے تھے تو ورقہ اور خدیجہ کے باپ بھائی بھائی تھے) اور جاہلیت کے زمانہ میں وہ نصرانی ہو گئے تھے اور عربی لکھنا جانتے تھے، تو جتنا اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا انجیل کو عربی زبان میں لکھتے تھے اور بہت بوڑھے تھے، ان کی بینائی (بڑھاپے کی وجہ سے) جاتی رہی تھی۔ ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ اے چچا! (وہ چچا کے بیٹے تھے لیکن بزرگی کیلئے ان کو چچا کہا اور ایک روایت میں چچا کے بیٹے ہیں) اپنے بھتیجے کی سنو۔ ورقہ نے کہا کہ اے میرے بھتیجے! تم نے کیا دیکھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کیفیت دیکھی تھی سب بیان کی تو ورقہ نے کہا کہ یہ تو وہ ناموس ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر اتری تھی۔ (ناموس سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں) کاش میں اس زمانہ میں جوان ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا ہاں! جب کوئی شخص دنیا میں وہ لے کر آیا، جسے تم لائے ہو (یعنی شریعت اور دین) تو لوگ اس کے دشمن ہو گئے اور اگر میں اس دن کو پاؤں گا تو اچھی طرح تمہاری مدد کروں گا