صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ -- کتاب: انصار کے مناقب
45. بَابُ هِجْرَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا۔
حدیث نمبر: 3911
حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أَقْبَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَةِ وَهُوَ مُرْدِفٌ أَبَا بَكْرٍ , وَأَبُو بَكْرٍ شَيْخٌ يُعْرَفُ وَنَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَابٌّ لَا يُعْرَفُ، قَالَ: فَيَلْقَى الرَّجُلُ أَبَا بَكْرٍ فَيَقُولُ: يَا أَبَا بَكْرٍ , مَنْ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْكَ؟ فَيَقُولُ: هَذَا الرَّجُلُ يَهْدِينِي السَّبِيلَ، قَالَ: فَيَحْسِبُ الْحَاسِبُ أَنَّهُ إِنَّمَا يَعْنِي الطَّرِيقَ , وَإِنَّمَا يَعْنِي سَبِيلَ الْخَيْرِ , فَالْتَفَتَ أَبُو بَكْرٍ فَإِذَا هُوَ بِفَارِسٍ قَدْ لَحِقَهُمْ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , هَذَا فَارِسٌ قَدْ لَحِقَ بِنَا , فَالْتَفَتَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ اصْرَعْهُ" , فَصَرَعَهُ الْفَرَسُ , ثُمَّ قَامَتْ تُحَمْحِمُ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ مُرْنِي بِمَا شِئْتَ، قَالَ: فَقِفْ مَكَانَكَ لَا تَتْرُكَنَّ أَحَدًا يَلْحَقُ بِنَا، قَالَ: فَكَانَ أَوَّلَ النَّهَارِ جَاهِدًا عَلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَكَانَ آخِرَ النَّهَارِ مَسْلَحَةً لَهُ فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَانِبَ الْحَرَّةِ , ثُمَّ بَعَثَ إِلَى الْأَنْصَارِ , فَجَاءُوا إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ فَسَلَّمُوا عَلَيْهِمَا، وَقَالُوا: ارْكَبَا آمِنَيْنِ مُطَاعَيْنِ , فَرَكِبَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَحَفُّوا دُونَهُمَا بِالسِّلَاحِ، فَقِيلَ فِي الْمَدِينَةِ: جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ , جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَشْرَفُوا يَنْظُرُونَ وَيَقُولُونَ: جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ , جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ , فَأَقْبَلَ يَسِيرُ حَتَّى نَزَلَ جَانِبَ دَارِ أَبِي أَيُّوبَ فَإِنَّهُ لَيُحَدِّثُ أَهْلَهُ إِذْ سَمِعَ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ وَهُوَ فِي نَخْلٍ لِأَهْلِهِ يَخْتَرِفُ لَهُمْ , فَعَجِلَ أَنْ يَضَعَ الَّذِي يَخْتَرِفُ لَهُمْ فِيهَا , فَجَاءَ وَهِيَ مَعَهُ فَسَمِعَ مِنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّ بُيُوتِ أَهْلِنَا أَقْرَبُ؟" فَقَالَ أَبُو أَيُّوبَ: أَنَا يَا نَبِيَّ اللَّهِ هَذِهِ دَارِي وَهَذَا بَابِي، قَالَ: فَانْطَلِقْ فَهَيِّئْ لَنَا مَقِيلًا، قَالَ: قُومَا عَلَى بَرَكَةِ اللَّهِ , فَلَمَّا جَاءَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ وَأَنَّكَ جِئْتَ بِحَقٍّ , وَقَدْ عَلِمَتْ يَهُودُ أَنِّي سَيِّدُهُمْ وَابْنُ سَيِّدِهِمْ , وَأَعْلَمُهُمْ وَابْنُ أَعْلَمِهِمْ , فَادْعُهُمْ فَاسْأَلْهُمْ عَنِّي قَبْلَ أَنْ يَعْلَمُوا أَنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ , فَإِنَّهُمْ إِنْ يَعْلَمُوا أَنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ، قَالُوا فِيَّ مَا لَيْسَ فِيَّ , فَأَرْسَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَقْبَلُوا فَدَخَلُوا عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُمْ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ , وَيْلَكُمْ اتَّقُوا اللَّهَ , فَوَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ إِنَّكُمْ لَتَعْلَمُونَ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا , وَأَنِّي جِئْتُكُمْ بِحَقٍّ فَأَسْلِمُوا"، قَالُوا: مَا نَعْلَمُهُ، قَالُوا: لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَهَا: ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ:" فَأَيُّ رَجُلٍ فِيكُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ؟ قَالُوا: ذَاكَ سَيِّدُنَا وَابْنُ سَيِّدِنَا , وَأَعْلَمُنَا وَابْنُ أَعْلَمِنَا، قَالَ:" أَفَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ؟" قَالُوا: حَاشَى لِلَّهِ مَا كَانَ لِيُسْلِمَ، قَالَ:" أَفَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ؟" قَالُوا: حَاشَى لِلَّهِ مَا كَانَ لِيُسْلِمَ، قَالَ:" أَفَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ؟" قَالُوا: حَاشَى لِلَّهِ مَا كَانَ لِيُسْلِمَ، قَالَ:" يَا ابْنَ سَلَامٍ , اخْرُجْ عَلَيْهِمْ" , فَخَرَجَ فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ , اتَّقُوا اللَّهَ , فَوَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ إِنَّكُمْ لَتَعْلَمُونَ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ وَأَنَّهُ جَاءَ بِحَقٍّ، فَقَالُوا: كَذَبْتَ , فَأَخْرَجَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالصمد نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے باپ عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کی سواری پر پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بوڑھے ہو گئے تھے اور ان کو لوگ پہچانتے بھی تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی جوان معلوم ہوتے تھے اور آپ کو لوگ عام طور سے پہچانتے بھی نہ تھے۔ بیان کیا کہ اگر راستہ میں کوئی ملتا اور پوچھتا کہ اے ابوبکر! یہ تمہارے ساتھ کون صاحب ہیں؟ تو آپ جواب دیتے کہ یہ میرے ہادی ہیں، مجھے راستہ بتاتے ہیں پوچھنے والا یہ سمجھتا کہ مدینہ کا راستہ بتلانے والا ہے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مطلب اس کلام سے یہ تھا کہ آپ دین و ایمان کا راستہ بتلاتے ہیں۔ ایک مرتبہ ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے مڑے تو ایک سوار نظر آیا جو ان کے قریب آ چکا تھا۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! یہ سوار آ گیا اور اب ہمارے قریب ہی پہنچنے والا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے مڑ کر دیکھا اور دعا فرمائی کہ اے اللہ! اسے گرا دے چنانچہ گھوڑی نے اسے گرا دیا۔ پھر جب وہ ہنہناتی ہوئی اٹھی تو سوار (سراقہ) نے کہا: اے اللہ کے نبی! آپ جو چاہیں مجھے حکم دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی جگہ کھڑا رہ اور دیکھ کسی کو ہماری طرف نہ آنے دینا۔ راوی نے بیان کیا کہ وہی شخص جو صبح آپ کے خلاف تھا شام جب ہوئی تو آپ کا وہ ہتھیار تھا دشمن کو آپ سے روکنے لگا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ پہنچ کر) حرہ کے قریب اترے اور انصار کو بلا بھیجا۔ اکابر انصار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دونوں کو سلام کیا اور عرض کیا آپ سوار ہو جائیں آپ کی حفاظت اور فرمانبرداری کی جائے گی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سوار ہو گئے اور ہتھیار بند انصار نے آپ دونوں کو حلقہ میں لے لیا۔ اتنے میں مدینہ میں بھی سب کو معلوم ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا چکے ہیں سب لوگ آپ کو دیکھنے کے لیے بلندی پر چڑھ گئے اور کہنے لگے کہ اللہ کے نبی آ گئے۔ اللہ کے نبی آ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف چلتے رہے اور (مدینہ پہنچ کر) ابوایوب رضی اللہ عنہ کے گھر کے پاس سواری سے اتر گئے۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ (ایک یہودی عالم نے) اپنے گھر والوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سنا، وہ اس وقت اپنے ایک کھجور کے باغ میں تھے اور کھجور جمع کر رہے تھے انہوں نے (سنتے ہی) بڑی جلدی کے ساتھ جو کچھ کھجور جمع کر چکے تھے اسے رکھ دینا چاہا جب آپ کی خدمت میں وہ حاضر ہوئے تو جمع شدہ کھجوریں ان کے ساتھ ہی تھیں۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں اور اپنے گھر واپس چلے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے (نانہالی) اقارب میں کس کا گھر یہاں سے زیادہ قریب ہے؟ ابوایوب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میرا اے اللہ کے نبی! یہ میرا گھر ہے اور یہ اس کا دروازہ ہے فرمایا (اچھا تو جاؤ) دوپہر کو آرام کرنے کی جگہ ہمارے لیے درست کرو ہم دوپہر کو وہیں آرام کریں گے۔ ابوایوب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا پھر آپ دونوں تشریف لے چلیں، اللہ مبارک کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی ان کے گھر میں داخل ہوئے تھے کہ عبداللہ بن سلام بھی آ گئے اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ آپ حق کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں، اور یہودی میرے متعلق اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں ان کا سردار ہوں اور ان کے سردار کا بیٹا ہوں اور ان میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں اور ان کے سب سے بڑے عالم کا بیٹا ہوں، اس لیے آپ اس سے پہلے کہ میرے اسلام لانے کا خیال انہیں معلوم ہو، بلایئے اور ان سے میرے بارے میں دریافت فرمایئے، کیونکہ انہیں اگر معلوم ہو گیا کہ میں اسلام لا چکا ہوں تو میرے متعلق غلط باتیں کہنی شروع کر دیں گے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا بھیجا اور جب وہ آپ کی خدمت حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اے یہودیو! افسوس تم پر، اللہ سے ڈرو، اس ذات کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں، تم لوگ خوب جانتے ہو کہ میں اللہ کا رسول برحق ہوں اور یہ بھی کہ میں تمہارے پاس حق لے کر آیا ہوں، پھر اب اسلام میں داخل ہو جاؤ، انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح تین مرتبہ کہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اچھا عبداللہ بن سلام تم میں کون صاحب ہیں؟ انہوں نے کہا ہمارے سردار اور ہمارے سردار کے بیٹے، ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے اور ہمارے سب سے بڑے عالم کے بیٹے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ اسلام لے آئیں۔ پھر تمہارا کیا خیال ہو گا۔ کہنے لگے اللہ ان کی حفاظت کرے، وہ اسلام کیوں لانے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابن سلام! اب ان کے سامنے آ جاؤ۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ باہر آ گئے اور کہا: اے یہود! اللہ سے ڈرو، اس اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی معبود نہیں تمہیں خوب معلوم ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ آپ حق کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں۔ یہودیوں نے کہا تم جھوٹے ہو۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے باہر چلے جانے کے لیے فرمایا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3911  
3911. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ کے پیچھے (سواری پر) حضرت ابوبکر ؓ تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ شکل و صورت میں بوڑھے تھے انہیں ہر ایک پہچانتا تھا لیکن نبی ﷺ نوجوان غیر معروف تھے۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ راستے میں اگر کوئی حضرت ابوبکر ؓ سے ملاقات کرتا اور پوچھتا اے ابوبکر! یہ آدمی کون ہے جو تمہارے آگے ہے؟ وہ جواب دیتے: یہ شخص مجھے رستہ بتانے والا ہے۔ پوچھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ وہ عام رستہ بتانے والا ہے، حالانکہ ابوبکر ؓ نے گوشہ چشم سے دیکھا تو ایک شخص جو گھوڑے پر سوار ہے وہ ان کے قریب آ پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ سوار ہم تک پہنچ رہا ہے۔ نبی ﷺ نے اسے مڑ کر دیکھا تو فرمایا: اے اللہ! اسے گرا دے۔ تو اسے گھوڑے نے گرا دیا۔ پھر وہ گھوڑا ہنہناتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ اس شخص نے عرض کی: اللہ کے نبی! آپ جو چاہیں مجھے حکم دیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3911]
حدیث حاشیہ:
نوٹ:
حضور اکرم ﷺ ابوبکر ؓ سے دو سال کئی مہینے عمر میں بڑے تھے لیکن اس وقت تک آپ کے بال سیاہ تھے اس لئے معلوم ہوتا تھا کہ آپ نوجوان ہیں لیکن ابوبکر ؓ کی داڑھی کے بال کافی سفید ہو چکے تھے۔
راوی نے اسی کی تعبیر بیان کی ہے ابوبکر ؓ چونکہ تاجر تھے اوراکثر اطراف عرب کا سفر کرتے رہتے تھے اس لئے لوگ آپ ؓ کو پہچانتے تھے۔
حدیث مذکور میں واقعہ ہجرت سے متعلق چند امور بیان کئے گئے ہیں آنحضرت ﷺ نے 27 صفر13 نبوی روز پنج شنبہ مطابق12 ستمبر622ء مکۃ المکرمہ سے مدینہ منورہ کے لئے سفر شروع فرمایا مکہ سے چند میل فاصلہ پر کوہ ثور ہے ابتدا ء میں آپ نے اپنے سفر میں قیام کے لئے اسی پہاڑ کے ایک غار کو منتخب فرمایا جہاں تین راتوں تک آپ نے قیام فرمایا۔
اس کے بعد یکم ربیع الاول روز دو شنبہ مطابق 16 ستمبر622 ء میں آپ مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوئے راستے میں بہت سے موا فق اور نا موافق حالات پیش آئے مگر آپ بفضلہ تعالیٰ ایک ہفتہ کے سفر کے بعد خیریت وعافیت کے ساتھ8 ربیع الاول13نبوی روز دوشنبہ مطابق 23 ستمبر622 ء مدینہ کے متصل ایک بستی قبا نامی میں پہنچ گئے اور پنج شنبہ تک یہاں آرام فرمایا اس دوران میں آپ نے یہاں مسجد قبا کی بنیاد ڈالی12ربیع الاول 1 ھ جمعہ کے دن آپ قبا سے روانہ ہو کر بنو سالم کے گھروں تک پہنچے تھے کہ جمعہ کا وقت ہو گیا اور آپ نے یہاں سو مسلمانوں کے ساتھ جمعہ ادا کیا جو اسلام میں پہلا جمعہ تھا جمعہ سے فارغ ہو کر آپ یثرب کے جنوبی جانب سے شہر میں داخل ہوئے اور آج شہر یثرب مدینہ النبی کے نا م سے موسوم ہو گیا۔
آنحضرت ﷺ نے یہود سے جو کچھ فرمایا وہ ان پیش گوئیوں کی بنا پر تھا جو توراۃ میں موجود تھیں چنانچہ حبقوق نبی کی کتاب باب 3درس 3 میں لکھا ہوا تھا کہ اللہ جنوب سے اور وہ جوقدوس ہے کوہ فاراں سے آیا اس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا اور زمین اس کی حمد سے معمور ہوئی یہاں مدینہ کے داخلہ پر یہ اشارے ہیں۔
کتاب بسویا 42 باب 11 میں ہے کہ سلع کے باشندے ایک گیت گائیں گے۔
یہ گیت آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری پر گایا گیا۔
مدینہ کا نام پہلے انبیاءکی کتابوں میں سلع ہے۔
جنگ خندق میں مسلمانوں نے جس جگہ خندق کھودی تھی وہاں ایک پہاڑی کا نام جبل سلع مدینہ والوں کی زبان پر عام مروج تھا۔
ان ہی پیش گوئیوں کی بنا پر حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ نے اسلام قبول فرما لیا۔
ترمذی کی روایت کے مطابق عبد اللہ بن سلام ؓ نے رسول کریم ﷺ کا کلام پاک آپ کے لفظوں میں سنا تھا جس کے سنتے ہی وہ اسلام کے شید ا بن گئے۔
«يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَفْشُوا السَّلَامَ، وَصِلُوا الْأَرْحَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ» یعنی اے لوگو! امن وسلامتی پھیلاؤ اور کھانا کھلاؤ اور صلہ رحمی کرو اور رات میں جب لوگ سوئے ہوئے ہوں اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھو۔
ان عملوں کے نتیجہ میں تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔
اولین میزبان رسول کریم ﷺ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ بڑے ہی خوش نصیب ہیں جن کو سب سے پہلے یہ شرف حاصل ہوا۔
عمر میں حضرت رسول کریم ﷺسے حضرت ابو بکر ؓ دو سال چھوٹے تھے مگر ان پربڑھاپا غالب آگیا تھا۔
بال سفید ہو گئے تھے۔
وہ اکثر اطراف عرب میں بہ سلسلہ تجارت سفر بھی کیا کرتے تھے اس لئے لوگ ان سے زیادہ واقف تھے۔
ابو ایوب انصاری ؓ بنو نجار میں سے تھے۔
آنحضرت ﷺ کے دادا کی ماں اسی خاندان سے تھیں اس لئے یہ قبیلہ آپ کا نانہال قرار پایا۔
حضرت ابو ایوب ؓ کا نام خالد بن زید بن کلیب انصاری ہے۔
آپ کی وفات 51ھ میں قسطنطنیہ میں ہوئی اور یہ اس وقت یزید بن معاویہ کے ساتھ تھے۔
جب کہ ان کے والد حضرت امیر معاویہ ؓ قسطنطنیہ میں جہاد کر رہے تھے تو ان کے ساتھ نکلے اور بیمار ہو گئے۔
جب بیماری نے زور پکڑا تو اپنے ساتھیوں کو وصیت فرمائی کہ جب میرا انتقال ہو جائے تو میرے جنازے کو اٹھا لینا پھر جب تم دشمن کے سامنے صف بستہ ہو جاؤ تو مجھے اپنے قدموں کے نیچے دفن کر دینا۔
لوگوں نے ایسا ہی کیا۔
آپ کی قبر قسطنطنیہ کی چار دیواری کے قریب ہے جو آج تک مشہور ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3911   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3911  
3911. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ کے پیچھے (سواری پر) حضرت ابوبکر ؓ تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ شکل و صورت میں بوڑھے تھے انہیں ہر ایک پہچانتا تھا لیکن نبی ﷺ نوجوان غیر معروف تھے۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ راستے میں اگر کوئی حضرت ابوبکر ؓ سے ملاقات کرتا اور پوچھتا اے ابوبکر! یہ آدمی کون ہے جو تمہارے آگے ہے؟ وہ جواب دیتے: یہ شخص مجھے رستہ بتانے والا ہے۔ پوچھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ وہ عام رستہ بتانے والا ہے، حالانکہ ابوبکر ؓ نے گوشہ چشم سے دیکھا تو ایک شخص جو گھوڑے پر سوار ہے وہ ان کے قریب آ پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! یہ سوار ہم تک پہنچ رہا ہے۔ نبی ﷺ نے اسے مڑ کر دیکھا تو فرمایا: اے اللہ! اسے گرا دے۔ تو اسے گھوڑے نے گرا دیا۔ پھر وہ گھوڑا ہنہناتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ اس شخص نے عرض کی: اللہ کے نبی! آپ جو چاہیں مجھے حکم دیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3911]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ، سیدنا ابوبکر ؓ سے دوسال اور چند ماہ بڑے تھے۔
لیکن دیکھنے میں ابوبکر بوڑھے معلوم ہوتے تھے کیونکہ ان کے بال کافی سفید ہوچکے تھے جبکہ رسول اللہ ﷺ کے تمام بال سیاہ تھے۔
اس سے معلوم ہوتا تھا کہ آپ جوان آدمی ہیں۔

حضرت ابوبکرچونکہ تجارت پیشہ تھے اور اکثر اطراف عرب کا سفر کرتے رہتے تھے، اس لیے لوگ آپ کو جانتے پہچانتے تھے۔

ا س حدیث میں حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کے اسلام لانے کا واقعہ بیان ہوا ہے وہ آپ کی آمد کا سن کر آ پ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تین سوالات کیے اور کہا:
ان کا جواب صرف نبی جانتا ہے اول یہ کہ قیامت کب آئے گی اور اس کی علامات کیا ہیں؟ دوسرا یہ کہ اہل جنت کو سب سے پہلے کون سا کھانا کھلایا جائے گا؟ تیسرا یہ کہ بچہ کبھی اپنے باپ اور کبھی ماں کے مشابہ کیوں ہوتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے جب ان تینوں سوالوں کا تسلی بخش جواب دیا تو وہ مسلمان ہوگئے۔

اس کے بعد یہودیوں کا کردار بیان کیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے یہود سے جو کچھ فرمایا وہ ان پیش گوئیوں کی بنا پر تھا جو اس وقت تورات میں موجود تھیں۔
انھی پیش گوئیوں کی بنا پر حضرت عبداللہ بن سلام ؓ نے اسلام قبول کیا۔
(فتح الباري: 315/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3911