صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ -- کتاب: انصار کے مناقب
45. بَابُ هِجْرَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا۔
حدیث نمبر: 3916
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ صَبَّاحٍ أَوْ بَلَغَنِي عَنْهُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، إِذَا قِيلَ لَهُ: هَاجَرَ قَبْلَ أَبِيهِ يَغْضَبُ، قَالَ: وَقَدِمْتُ أَنَا وَعُمَرُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَوَجَدْنَاهُ قَائِلًا , فَرَجَعْنَا إِلَى الْمَنْزِلِ , فَأَرْسَلَنِي عُمَرُ، وَقَالَ: اذْهَبْ فَانْظُرْ هَلِ اسْتَيْقَظَ , فَأَتَيْتُهُ فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ , فَبَايَعْتُهُ , ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلَى عُمَرَ , فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّهُ قَدِ اسْتَيْقَظَ , فَانْطَلَقْنَا إِلَيْهِ نُهَرْوِلُ هَرْوَلَةً حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهِ فَبَايَعَهُ. ثُمَّ بَايَعْتُهُ".
مجھ سے محمد بن صباح نے خود بیان کیا یا ان سے کسی اور نے نقل کر کے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے، ان سے عاصم احول نے، ان سے ابوعثمان نے بیان کیا اور انہوں نے کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے میں نے سنا کہ جب ان سے کہا جاتا کہ تم نے اپنے والد سے پہلے ہجرت کی تو وہ غصہ ہو جایا کرتے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے تھے، اس لیے ہم گھر واپس آ گئے پھر عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا اور فرمایا کہ جا کر دیکھ آؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی بیدار ہوئے یا نہیں چنانچہ میں آیا (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو چکے تھے) اس لیے اندر چلا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی پھر میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیدار ہونے کی خبر دی۔ اس کے بعد ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دوڑتے ہوئے حاضر ہوئے عمر رضی اللہ عنہ بھی اندر گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور میں نے بھی (دوبارہ) بیعت کی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3916  
3916. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم نے اپنے والد سے پہلے ہجرت کی ہے تو وہ ناراض ہو جاتے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ میں حضرت عمر ؓ کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ اس وقت آپ آرام فر ماتھے، اس لیے ہم اپنے گھر واپس آ گئے۔ حضرت عمر ؓ نے مجھے دوبارہ بھیجا اور فرمایا: جا کر دیکھ آؤ کہ آپ ﷺ ابھی بیدار ہوئے ہیں یا نہیں؟ چنانچہ میں آیا، اندر چلا گیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ پھر میں حضرت عمر ؓ کے پاس آیا اور انہیں آپ ﷺ کے بیدار ہونے کی اطلاع دی۔ اس کے بعد ہم آپ ﷺ کی خدمت میں دوڑے ہوئے حاضر ہوئے۔ حتیٰ کہ حضرت عمر ؓ اندر گئے اور آپ سے بیعت کی اور میں نے بھی دوبارہ بیعت کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3916]
حدیث حاشیہ:
گویا عبد اللہ بن عمر ؓ نے لوگوں کی اس غلط گوئی کا سبب بیان کردیا کہ اصل حقیقت یہ تھی۔
اس پر بعض نے یہ سمجھا کہ میں نے اپنے والد سے پہلے ہجرت کی یہ بالکل غلط ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3916   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3916  
3916. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم نے اپنے والد سے پہلے ہجرت کی ہے تو وہ ناراض ہو جاتے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ میں حضرت عمر ؓ کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ اس وقت آپ آرام فر ماتھے، اس لیے ہم اپنے گھر واپس آ گئے۔ حضرت عمر ؓ نے مجھے دوبارہ بھیجا اور فرمایا: جا کر دیکھ آؤ کہ آپ ﷺ ابھی بیدار ہوئے ہیں یا نہیں؟ چنانچہ میں آیا، اندر چلا گیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ پھر میں حضرت عمر ؓ کے پاس آیا اور انہیں آپ ﷺ کے بیدار ہونے کی اطلاع دی۔ اس کے بعد ہم آپ ﷺ کی خدمت میں دوڑے ہوئے حاضر ہوئے۔ حتیٰ کہ حضرت عمر ؓ اندر گئے اور آپ سے بیعت کی اور میں نے بھی دوبارہ بیعت کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3916]
حدیث حاشیہ:
جب حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے کوئی کہتا کہ آپ نے حضرت عمر ؓ سے پہلے ہجرت کی ہے تو اس سے ایسے گفتگو کرتے جیسے کوئی غصے سے بات کرتا ہے۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ انھیں ان کے والد پر فوقیت نہ دی جائے۔
گویا حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے لوگوں کی اس غلط فہمی کا سبب بیان کردیا کہ اصل حقیقت یہ تھی اس سے کچھ لوگوں نے سمجھ لیا کہ میں نے اپنےوالد گرامی سے پہلے ہجرت کی ہے حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہوا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے یہ بیعت رضوان کا واقعہ ہے۔
مدینہ طیبہ میں آنے کی بیعت اس سے مقصود نہیں ہے کیونکہ اس وقت حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کمسن تھے اور بیعت کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔
اس کے تین سال بعد غزوہ احد ہوا تو انھیں کم عمر ہونے کی وجہ سے جنگ میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
(فتح الباري: 320/7)
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3916