صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ -- کتاب: انصار کے مناقب
46. بَابُ مَقْدَمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ الْمَدِينَةَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کا مدینہ میں آنا۔
حدیث نمبر: 3928
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، وَأَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ وَهُوَ بِمِنًى فِي آخِرِ حَجَّةٍ حَجَّهَا عُمَرُ فَوَجَدَنِي، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ الْمَوْسِمَ يَجْمَعُ رَعَاعَ النَّاسِ , وَإِنِّي أَرَى أَنْ تُمْهِلَ حَتَّى تَقْدَمَ الْمَدِينَةَ فَإِنَّهَا دَارُ الْهِجْرَةِ وَالسُّنَّةِ وَالسَّلَامَةِ وَتَخْلُصَ لِأَهْلِ الْفِقْهِ , وَأَشْرَافِ النَّاسِ وَذَوِي رَأْيِهِمْ، قَالَ عُمَرُ:" لَأَقُومَنَّ فِي أَوَّلِ مَقَامٍ أَقُومُهُ بِالْمَدِينَةِ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھے یونس نے خبر دی، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا مجھ کو عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ منیٰ میں اپنے خیمہ کی طرف واپس آ رہے تھے۔ یہ عمر رضی اللہ عنہ کے آخری حج کا واقعہ ہے تو ان کی مجھ سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ (عمر رضی اللہ عنہ حاجیوں کو خطاب کرنے والے تھے اس لیے) میں نے عرض کیا کہ اے امیرالمؤمنین! موسم حج میں معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے سب طرح کے لوگ جمع ہوتے ہیں اور شور و غل بہت ہوتا ہے اس لیے میرا خیال ہے کہ آپ اپنا ارادہ موقوف کر دیں اور مدینہ پہنچ کر (خطاب فرمائیں) کیونکہ وہ ہجرت اور سنت کا گھر ہے اور وہاں سمجھدار معزز اور صاحب عقل لوگ رہتے ہیں۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو، مدینہ پہنچتے ہی سب سے پہلی فرصت میں لوگوں کو خطاب کرنے کے لیے ضرور کھڑا ہوں گا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3928  
3928. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ منی میں اپنے اہل خانہ کی طرف آ رہے تھے اور وہ حضرت عمر ؓ کے آخری حج میں ان کے ساتھ تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن ؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے مجھے راستے میں پا لیا (تو ایک اعلان کرنے کا مشورہ کیا)۔ میں نے عرض کی: اے امیر المومنین! موسم حج میں عام لوگ جمع ہوتے ہیں، میری رائے یہ ہے کہ آپ اس اعلان کے لیے کچھ دیر کریں۔ جب مدینہ طیبہ تشریف لائیں جو کہ دارِ ہجرت اور سنت نبوی کا مرکز ہے وہاں آپ فقیہ، اہل فکر اور صاحب بصیرت لوگوں کو پائیں گے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: مدینہ طیبہ پہنچ کر میں سب سے پہلے لوگوں سے اسی موضوع پر گفتگو کروں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3928]
حدیث حاشیہ:
اس واقعہ کا پس منظر یہ ہے کہ کسی نادان نے منیٰ میں عین موسم حج میں یہ کہا تھا کہ اگر عمر مر جائیں تو میں فلاں شخص سے بیعت کروں گا۔
ابو بکر ؓ سے لوگوں نے بن سوچے سمجھے بیعت کر لی تھی۔
یہ بات حضرت عمر ؓ تک پہنچ گئی جس پر حضرت عمر ؓ کو غصہ آگیا اور اس شخص کو بلا کر تنبیہ کا خیال ہوا مگر حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ نے یہ صلاح دی کہ یہ موسم حج ہے ہر قسم کے دانا و نادان لوگ یہاں جمع ہیں یہا ں یہ مناسب نہ ہوگا مدینہ شریف پہنچ کر آپ جو چاہیں کریں۔
حضرت عمر ؓ نے حضرت عبد الرحمن ؓ کایہ مشورہ قبول فرما لیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3928   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3928  
3928. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ منی میں اپنے اہل خانہ کی طرف آ رہے تھے اور وہ حضرت عمر ؓ کے آخری حج میں ان کے ساتھ تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن ؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے مجھے راستے میں پا لیا (تو ایک اعلان کرنے کا مشورہ کیا)۔ میں نے عرض کی: اے امیر المومنین! موسم حج میں عام لوگ جمع ہوتے ہیں، میری رائے یہ ہے کہ آپ اس اعلان کے لیے کچھ دیر کریں۔ جب مدینہ طیبہ تشریف لائیں جو کہ دارِ ہجرت اور سنت نبوی کا مرکز ہے وہاں آپ فقیہ، اہل فکر اور صاحب بصیرت لوگوں کو پائیں گے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: مدینہ طیبہ پہنچ کر میں سب سے پہلے لوگوں سے اسی موضوع پر گفتگو کروں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3928]
حدیث حاشیہ:

اس مقام پر یہ حدیث انتہائی اختصار سے بیان ہوئی ہے دراصل حضرت عمر ؓ کوکسی شخص کے متعلق اطلاع ملی کہ اس نے کہا ہے کہ اگر عمر ؓ فوت ہو گئے تو میں فلاں شخص سے بیعت کروں گا۔
چونکہ اس طرح کی افواہیں حکومت کے استحکام کے خلاف ہوتی ہیں۔
اس لیے حضرت عمر ؓ نے اس کا نوٹس لینا چاہا جسے حضرت عبد الرحمٰن ؓ کے مشورہ دینے سے مؤخر کردیا گیا۔
اس کی تفصیل حدیث 6830۔
میں بیان ہو گی۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔

اس حدیث کی عنوان سے مناسبت اس طرح ہے کہ اس میں اہل مدینہ کے صاحب بصیرت اور اہل شعور ہونے کا ذکر ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3928