Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ
کتاب: انصار کے مناقب
51. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 3938
حَدَّثَنِي حَامِدُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ بِشْرِ بْنِ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ بَلَغَهُ مَقْدَمُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَأَتَاهُ يَسْأَلُهُ عَنْ أَشْيَاءَ، فَقَالَ:" إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ ثَلَاثٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا نَبِيٌّ , مَا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ؟ وَمَا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ؟ وَمَا بَالُ الْوَلَدِ يَنْزِعُ إِلَى أَبِيهِ أَوْ إِلَى أُمِّهِ؟ قَالَ:" أَخْبَرَنِي بِهِ جِبْرِيلُ آنِفًا، قَالَ ابْنُ سَلَامٍ: ذَاكَ عَدُوُّ الْيَهُودِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، قَالَ:" أَمَّا أَوَّلُ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ فَنَارٌ تَحْشُرُهُمْ مِنَ الْمَشْرِقِ إِلَى الْمَغْرِبِ، وَأَمَّا أَوَّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ فَزِيَادَةُ كَبِدِ الْحُوتِ، وَأَمَّا الْوَلَدُ فَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الرَّجُلِ مَاءَ الْمَرْأَةِ نَزَعَ الْوَلَدَ، وَإِذَا سَبَقَ مَاءُ الْمَرْأَةِ مَاءَ الرَّجُلِ نَزَعَتِ الْوَلَدَ"، قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَأَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الْيَهُودَ قَوْمٌ بُهُتٌ فَاسْأَلْهُمْ عَنِّي قَبْلَ أَنْ يَعْلَمُوا بِإِسْلَامِي , فَجَاءَتْ الْيَهُودُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ رَجُلٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ فِيكُمْ؟ قَالُوا: خَيْرُنَا وَابْنُ خَيْرِنَا , وَأَفْضَلُنَا وَابْنُ أَفْضَلِنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَسْلَمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ، قَالُوا: أَعَاذَهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ فَأَعَادَ عَلَيْهِمْ، فَقَالُوا: مِثْلَ ذَلِكَ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ عَبْدُ اللَّهِ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، قَالُوا: شَرُّنَا وَابْنُ شَرِّنَا وَتَنَقَّصُوهُ، قَالَ: هَذَا كُنْتُ أَخَافُ يَا رَسُولَ اللَّهِ.
مجھ سے حامد بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے، ان سے حمید طویل نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ جب عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ آنے کی خبر ہوئی تو وہ آپ سے چند سوال کرنے کے لیے آئے۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ سے تین چیزوں کے متعلق پوچھوں گا جنہیں نبی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ قیامت کی سب سے پہلی نشانی کیا ہو گی؟ اہل جنت کی ضیافت سب سے پہلے کس کھانے سے کی جائے گی؟ اور کیا بات ہے کہ بچہ کبھی باپ پر جاتا ہے اور کبھی ماں پر؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جواب ابھی مجھے جبرائیل نے آ کر بتایا ہے۔ عبداللہ بن سلام نے کہا کہ یہ ملائکہ میں یہودیوں کے دشمن ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کی پہلی نشانی ایک آگ ہے جو انسانوں کو مشرق سے مغرب کی طرف لے جائے گی۔ جس کھانے سے سب سے پہلے اہل جنت کی ضیافت ہو گی وہ مچھلی کی کلیجی کا بڑھا ہوا ٹکڑا ہو گا (جو نہایت لذیذ اور زود ہضم ہوتا ہے) اور بچہ باپ کی صورت پر اس وقت جاتا ہے جب عورت کے پانی پر مرد کا پانی غالب آ جائے اور جب مرد کے پانی پر عورت کا پانی غالب آ جائے تو بچہ ماں پر جاتا ہے۔ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہودی بڑے بہتان لگانے والے لوگ ہیں۔ اس لیے آپ اس سے پہلے کہ میرے اسلام کے بارے میں انہیں کچھ معلوم ہو، ان سے میرے متعلق دریافت فرمائیں۔ چنانچہ چند یہودی آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہاری قوم میں عبداللہ بن سلام کون ہیں؟ وہ کہنے لگے کہ ہم میں سب سے بہتر اور سب سے بہتر کے بیٹے ہیں، ہم میں سب سے افضل اور سب سے افضل کے بیٹے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا کیا خیال ہے اگر وہ اسلام لائیں؟ وہ کہنے لگے اس سے اللہ تعالیٰ انہیں اپنی پناہ میں رکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ان سے یہی سوال کیا اور انہوں نے یہی جواب دیا۔ اس کے بعد عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ باہر آئے اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں۔ اب وہ کہنے لگے یہ تو ہم میں سب سے بدتر آدمی ہیں اور سب سے بدتر باپ کے بیٹے ہیں۔ فوراً ہی برائی شروع کر دی، عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اسی کا مجھے ڈر تھا۔

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3938 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3938  
حدیث حاشیہ:
کہ یہودی جب میرے اسلام کا حال سنیں گے تو پہلے ہی برا کہیں گے تو آپ نے سن لیا ان کی بے ایمانی معلوم ہو گئی پہلے تو تعریف کی جب اپنے مطلب کے خلاف ہوا تو لگے برائی کرنے۔
بے ایمانوں کا یہی شیوہ ہے جو شخص ان کے مشرب کے خلاف ہو وہ کتنا عالم فاضل صاحب ہنر اچھا شخص ہو لیکن اس کی برائی کرتے ہیں۔
اب تو ہر جگہ یہ آفت پھیل گئی ہے کہ اگر کوئی عالم فاضل شخص علمائے سوء کا ایک مسئلہ میں اختلاف کرے تو بس اس کے سارے فضائل اور کمالات کو ایک طرف ڈال کر اس کے دشمن بن جاتے ہیں جو ادبار وتنزل کی نشانی ہے۔
اکثر فقہی متعصب علماء بھی اس مرض میں گرفتار ہیں۔
إلا ما شاء اللہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3938   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3938  
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں قوم یہود کی ایک عادت بیان ہوئی ہے کہ جب وہ اپنے خلاف کسی سے کوئی بات سنتے ہیں تو اس کے خلاف بدزبانی کرناشروع کردیتے ہیں۔
بدکردار لوگوں کا یہی شیوہ ہوتا ہے کہ جو شخص ان کے مزاج کے خلاف ہو، خواہ وہ کتنا بڑا عالم کیوں نہ ہو وہ اس کی بُرائی کریں گے۔
علماء سوء کا بھی یہی حال ہے کہ اگر کوئی عالم فاضل ان کے اختیار کردہ کسی مؤقف سے اختلاف کرے تو اس کے سب فضائل وکمالات ایک طرف ڈال کر اس کے دشمن بن جاتے ہیں۔
اکثر فقہی متعصب علماء اس مرض میں گرفتار ہیں۔

چونکہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی مدینہ طیبہ تشریف آوری کاذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو بیان فرمایا ہے۔

حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ مچھلی کا جگر انتہائی لذیذ اور بہترین کھانا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ اہل جنت کی جنت میں پہلے اس کھانے سے ضیافت فرمائے گا۔
حضرت ثوبان ؓ کی حدیث میں ہے کہ جب جنتی جنت میں داخل ہوں گے تو ان کا ناشتہ مچھلی کے جگر سے ہوگا اورچشمہ سلسبیل سے جام بھر بھر کر انھیں پلائے جائیں گے۔
(المعجم الکبیر للطبراني: 93/2، وفتح الباري: 341/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3938   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 200  
´مرد اور عورت کی منی میں فرق کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مرد کی منی گاڑھی اور سفید ہوتی ہے، اور عورت کی منی پتلی زرد ہوتی ہے، تو دونوں میں جس کی منی سبقت کر جائے ۱؎ بچہ اسی کی ہم شکل ہوتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 200]
200۔ اردو حاشیہ: جماع سے مرد اور عورت کی منی مل جاتی ہے۔ منی دراصل جراثیم کا مجموعہ ہوتا ہے، جس منی کے جرثومے قوی ہوں گے، وہ دوسری پر غالب آ جائے گی اور بچے کی مشابہت اس سے ہو گی۔ بعض نے «سَبَقَ» کے معنی پہلے نکلنا بھی کیے ہیں۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 200   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3329  
3329. حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی کریم ﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف لانے کی خبر ملی تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: میں آپ سے تین سوال کرنا چاہتا ہوں، انھیں نبی کریم ﷺ کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا۔ قیامت کی سب سے پہلی نشانی کیا ہے؟ وہ کونسا کھانا ہے جو اہل جنت کو سب سے پہلے دیا جائے گا؟ کس وجہ سے بچہ اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے اور کس لیے اپنے ماموؤں کے مشابہ ہوتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے ابھی ابھی حضرت جبرئیل ؑ نے ان کے متعلق بتایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: وہ فرشتہ تو قوم یہود کا دشمن ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کی پہلی نشانی آگ ہے جولوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف ہانک لے جائے گی۔ سب سے پہلا کھانا جو اہل جنت تناول کریں گے وہ مچھلی کے جگر کے ساتھ کا بڑھا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3329]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن سلام ؓ یہود کے بڑے عالم تھے جو آنحضرت ﷺ کو دیکھ کر فوراً ہی صداقت محمدی کے قائل ہوگئے اور اسلام قبول کرلیا تھا۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
یہ جو بعض لوگ نقل کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سلام نے آنحضرت ﷺ سے ہزار سوال کئے تھے، یہ غلط ہے اسی طرح ہزار مسئلہ کا رسالہ بھی مصنوعی ہے۔
تعجب ہے کہ مسلمان ایسے جھوٹے رسالوں کو پڑھیں اورحدیث کی صحیح کتابیں نہ دیکھیں۔
اسی طرح صبح کا ستارہ، وقائق الاخبار اور منبہات اور دلائل الخیرات کی اکثر روایتیں موضوع ہیں۔
آگ سے متعلق ایک روایت یوں ہے کہ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک حجاز میں ایک ایسی آگ نہ نکلے جس کی روشنی بصریٰ کے اونٹوں کی گردنوں کو روشن نہ کرے۔
یہ روایت صحیح مسلم اور حاکم میں ہے۔
امام نووی ؒ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ یہ آگ ہمارے زمانے 654ھ میں مدینہ میں ظاہر ہوئی اور آگ اس قدر بڑی تھی کہ مدینہ کے مشرقی پہلو سے لے کر پہاڑی تک پھیلی ہوئی تھی، اس کا حال شام اور تمام شہروں میں بتواتر معلوم ہوا اور ہم سے اس شخص نے بیان کیا جو اس وقت مدینہ میں موجود تھا۔
ابوشامہ ایک معاصر مصنف کا بیان ہے کہ ہمارے پاس مدینہ سے خطوط آئے جن میں لکھا تھا کہ چہار شنبہ کی رات کو 3جمادی الثانی میں مدینہ میں ایک سخت دھماکہ ہوا، پھر بڑا زلزلہ آیا جو ساعت بہ ساعت بڑھتا رہا۔
یہاں تک کہ پانچویں تاریخ کو بہت بڑی آگ پہاڑی میں قريظہ کے محلہ کے قریب نمودار ہوئی، جس کو ہم مدینہ کے اندر اپنے گھروں سے اس طرح دیکھتے تھے کہ گویا وہ ہمارے قریب ہی ہے۔
ہم اسے دیکھنے کو چڑھے تو دیکھا کہ پہاڑ آگ بن کر بہہ رہے ہیں اور ادھر ادھر شعلے بن کر جارہے ہیں۔
آگ کے شعلے پہاڑ معلوم ہورہے تھے۔
محلوں کے برابر چنگاریاں اڑرہی تھیں۔
یہاں تک کہ یہ آگ مکہ مکرمہ اور صحرا سے بھی نظرآتی تھی، یہ حالت ایک ماہ سے زیادہ رہی (تاریخ الخلفاءبحوالہ ابوشامہ واقعات654ھ)
علامہ ذہبی ؒ نے بھی اس آگ کا ذکر کیا ہے (مختصر تاریخ الإسلام ذہبي، جلد: 2ص: 121، حیدرآباد)
حافظ سیوطی لکھتے ہیں کہ بہت سے لوگوں سے جو بصریٰ میں اس وقت موجود تھے یہ شہادت منقول ہے کہ انہوں نے رات کو اس کی روشنی میں بصریٰ کے اونٹوں کی گردنیں دیکھیں۔
(تاریخ الخلفاءسیوطی، 654، خلاصہ از سیرت النبی، جلد: 3، ص: 712)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3329   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3329  
3329. حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی کریم ﷺ کے مدینہ طیبہ تشریف لانے کی خبر ملی تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: میں آپ سے تین سوال کرنا چاہتا ہوں، انھیں نبی کریم ﷺ کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا۔ قیامت کی سب سے پہلی نشانی کیا ہے؟ وہ کونسا کھانا ہے جو اہل جنت کو سب سے پہلے دیا جائے گا؟ کس وجہ سے بچہ اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے اور کس لیے اپنے ماموؤں کے مشابہ ہوتا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے ابھی ابھی حضرت جبرئیل ؑ نے ان کے متعلق بتایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: وہ فرشتہ تو قوم یہود کا دشمن ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کی پہلی نشانی آگ ہے جولوگوں کو مشرق سے مغرب کی طرف ہانک لے جائے گی۔ سب سے پہلا کھانا جو اہل جنت تناول کریں گے وہ مچھلی کے جگر کے ساتھ کا بڑھا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3329]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒنے اس حدیث کو تخلیق اولاد آدم کی بنیاد ثابت کرنے کے لیے بیان کیا ہے۔
حضرت عائشہ ؓسے مروی ایک حدیث میں ہے۔
کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر غالب آجائے تو بچے کی مشابہت ماموؤں سے ہوتی ہے اور جب مرد کا پانی عورت کے پانی پر غالب آجائے تو بچے کی شکل و صورت چچاؤں سے ملتی جلتی ہے۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 715۔
(313)
ایک روایت میں مزید وضاحت ہے کہ آدمی کا پانی گاڑھا سفید ہوتا ہے جبکہ عورت کا پانی پتلا زرد ہوتا ہے۔
ان میں سے جو بھی غالب آجائے اس سے بچے کی مشابہت ہو جاتی ہے۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 710۔
(311)

ان روایات میں "علو"سے مراد سبقت ہے یعنی شکل وصورت کی بنیاد رحم مادر میں پانی کا پہلے پہنچنا ہے البتہ حضرت ثوبان ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اگر آدمی کی منی عورت کی منی پر غالب آجائے تو اللہ کے حکم سے نرپیدا ہوتا ہے اور اگر عورت کا نطفہ مرد کے نطفے پر غلبہ پالے تو اللہ کے حکم سے لڑکی پیدا ہوتی ہے۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 716۔
(315)
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ پانی کی سبقت سے شکل و صورت اور اس کے غلبے سے نر مادہ ہوتا ہے اس طرح چھ صورتیں ہمارےسامنے آتی ہیں۔
رحم مادر میں آدمی کا پانی پہلے نیچے پہنچے اور وہی غالب بھی آجائے تو لڑکا جو اپنے دوھیال کے مشابہ ہوگا۔
رحم مادر میں عورت کا پانی سبقت کرے اور وہی غالب بھی آئے تو لڑکی جو اپنے ننھیال سے ملتی جلتی ہوگی۔
رحم مادر میں آدمی کا پانی پہلے پہنچے لیکن غلبہ عورت کے پانی کو ہو تو لڑکی جو دوھیال کے مشابہ ہوگی۔
رحم مادر میں عورت کا پانی سبقت کرے لیکن غالب مرد کا پانی آئے تو لڑکا جو ننھیال سے ملتا جلتا ہوگا۔
رحم مادرمیں آدمی کا پانی پہلے جائےلیکن کسی کو غلبہ نہ ملے تو شکل وصورت دوھیال کی لیکن اس کا نر و مادہ واضح نہیں ہوگا۔
رحم مادر میں عورت کا پانی پہلے پہنچ جائے لیکن غلبہ کسی کو نہ ہوتو شکل و صورت ننھیال کی لیکن اس کا مذکر و مؤنث ہونا واضح نہ ہوگا۔
(فتح الباري: 342/7)
شاید آخری دو سورتیں تیسری مخلوق (یجڑے)
پیدا ہونے کا باعث ہوں یا مستورالاعضاء بچے پیدا ہونے کا سبب ہوں جن کے آپریشن کے ذریعے سے اعضائے تناسلی ظاہر کیے جاتے ہیں۔
اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3329