صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
21. بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الْخُمْرَةِ:
باب: کھجور کی چٹائی پر نماز پڑھنا۔
حدیث نمبر: 381
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، قَالَتْ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عَلَى الْخُمْرَةِ".
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، کہ کہا ہم سے شعبہ نے، کہا ہم سے سلیمان شیبانی نے عبداللہ بن شداد کے واسطے سے، انہوں نے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ گاہ (یعنی چھوٹے مصلے) پر نماز پڑھا کرتے تھے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 656  
´چھوٹی چٹائی پر نماز پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ام المؤمنین میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے اور میں آپ کے سامنے ہوتی اور حائضہ ہوتی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تو بسا اوقات آپ کا کپڑا مجھ سے لگ جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹی چٹائی پر نماز پڑھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 656]
656۔ اردو حاشیہ:
ایسی چٹائی جو کھجور کے پتوں سے بنائی گئی ہو کہ انسان اس پر صرف بیٹھ سکے یا اس پر چہرہ اور ہاتھ رکھے جا سکیں اسے «خمرة» کہتے ہیں۔ اگر یہ انسان کی قامت کے برابر ہو تو اسے «حصيرة» کہتے ہیں۔ درج ذیل احادیث سے استدلال یہ ہے کہ سجدے کے حالت میں پیشانی کا براہ راست زمین یا مٹی پر لگنا ضروری نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 656   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 739  
´کھجور کی چٹائی پہ نماز پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی چھوٹی چٹائی پر نماز پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 739]
739 ۔ اردو حاشیہ: حصیر بڑی چٹائی ہوتی ہے اور خمرہ چھوٹی چٹائی۔ بعض کا خیال ہے کہ خمرہ صرف چہرے اور ہتھیلیوں کے نیچے ہوتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس لفظ کا استعمال عام ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 739   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث958  
´نمازی اور قبلہ کے درمیان کوئی چیز حائل ہو تو نماز جائز ہے۔`
عبداللہ بن شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے اور میں آپ کے سامنے لیٹی ہوتی تھی، اور بسا اوقات جب آپ سجدہ فرماتے تو آپ کا کپڑا مجھ سے چھو جاتا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 958]
اردو حاشہ:
ام امومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مقصد یہ ہے کہ وہ نبی ﷺ سے بہت قریب آرام فرما رہی ہوتی تھیں حتیٰ کہ سجدہ کرتے وقت آپﷺ کی چادر مبارک ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے جسم کوچھوتی تھی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 958   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:381  
381. حضرت میمونہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ چھوٹی چٹائی پر نماز ادا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:381]
حدیث حاشیہ:

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ ان عنوانات سے ایک شبہے کا ازالہ فرمانا چاہتے ہیں، حدیث میں ہے کہ میرے لیے مٹی کو مسجد اور طہور بنادیا گیا ہے۔
اسی طرح ایک صحابی نے سجدے کے لیے پھونک مار کر مٹی کو اڑانا چاہا تو آپ نے فرمایا کہ ایسا نہ کر بلکہ اپنی پیشانی کو خاک آلود کر۔
ان روایات سے شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ شاید مٹی کے علاوہ کسی دوسری چیز پر سجدہ جائز نہیں۔
امام بخاری ؒ اس کی نفی کر رہے ہیں کہ زمین پر سجدہ ضروری نہیں، بلکہ بوریا چٹائی اور دوسرے کسی بھی طرح کے پاک فرش پر سجدہ کرنا جائز ہے۔

اس روایت سے پہلے حضرت میمونہ ؓ کی حدیث میں خمرہ پرنماز پڑھنے کا ذکر آچکا تھا۔
یہاں مستقل عنوان قائم کر کے اس حدیث کو پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی؟اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری کا مقصد اختلاف سند استخراج مسائل اور مقصود شیخ کا بیان ہے کہ ہر شیخ کا حدیث بیان کرنے کا الگ مقصد ہونا ہے۔
اس سے پہلے امام بخاری کے شیخ مسدد نے اس حدیث کو مطول بیان کیا تھا اور اب ان کے دوسرے شیخ ابو لولید نے اپنے خاص مقصد کے پیش نظر اسے اتنا ہی مختصر بیان کیا ہے۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پہلے یہ مسئلہ ضمناً معلوم ہوا تھا یہاں اہمیت کے پیش نظر اسے مستقل عنوان کے تحت لائے ہیں۔
واللہ أعلم۔

امام بخاری ؒ کا اس تالیف سے مقصود جمع احادیث ہی نہیں، بلکہ اس کے علاوہ اختلاف سند استنباط مسائل اور استخراج احکام بھی ہے، پھر کہیں تفصیل اور کہیں اختصار پیش نظر رکھا ہے۔
جیسا کہ الصلاة علی النفساء کے عنوان میں حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے مروی ایک حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک نفاس والی عورت کی نماز جنازہ پڑھی اور اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے۔
پھر اس کے بعد ایک مستقل عنوان قائم کیا، یعنی عورت کے جنازے میں کہاں کھڑا ہونا چاہیے؟اس عنوان کے ثبوت کے لیے پھر حدیث سمرہ پیش کی، لیکن اس کی سند دوسری لائے ہیں۔
اس باب میں مستقل طور پر بیان فرمایا کہ اگر میت عورت ہو تو اس کے جنازے کے لیے درمیان میں کھڑا ہونا چاہیے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 381