مختصر صحيح مسلم
طلاق کے مسائل

اللہ تعالیٰ کے فرمان ((وان تظاہراً علیہ)) کے متعلق۔
حدیث نمبر: 857
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ میں ایک سال تک سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے پوچھنے کا ارادہ کرتا رہا لیکن ان کے رعب کی وجہ سے نہ پوچھ سکا، یہاں تک کہ وہ حج کو نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ نکلا۔ پھر جب واپسی میں تھے کہ سیدنا عمر ایک بار پیلو کے درختوں کی طرف کسی حاجت کو جھکے اور میں ان کے لئے ٹھہرا رہا، یہاں تک کہ وہ اپنی حاجت سے فارغ ہوئے تو میں ان کے ساتھ چلا۔ اور میں نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! وہ دونوں عورتیں کون ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی ازواج میں سے زور ڈالا، تو انہوں نے کہا کہ وہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ اللہ کی قسم میں آپ سے اس بارے میں ایک سال سے پوچھنا چاہتا تھا لیکن آپ کی ہیبت سے نہ پوچھ سکا تھا۔ تو انہوں نے کہا کہ نہیں ایسا مت کرو، جو بات تمہیں خیال آئے کہ مجھے معلوم ہے اس کو تم مجھ سے دریافت کر لو، اگر میں جانتا ہوں تو تمہیں بتا دوں گا۔ کہتے ہیں پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم ہم پہلے جاہلیت میں گرفتار تھے اور عورتوں کو کچھ اہمیت نہیں دیتے تھے، یہاں تک کہ اللہ نے ان کے ادائے حقوق میں اتارا جو کہ اتارا اور ان کے لئے باری مقرر کی جو مقرر کی۔ چنانچہ ایک دن ایسا ہوا کہ میں کسی کام میں مشورہ کر رہا تھا کہ میری بیوی نے کہا کہ تم اس طرح کرتے تو خوب ہوتا، تو میں نے اس سے کہا کہ تجھے میرے کام میں کیا دخل؟ جس کا میں ارادہ کرتا ہوں تجھے اس سے کیا سروکار؟ تو اس نے مجھ سے کہا کہ اے ابن خطاب! تعجب ہے تم تو چاہتے ہو کہ کوئی تمہیں جواب ہی نہ دے حالانکہ تمہاری صاحبزادی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتی ہے، یہاں تک کہ وہ دن بھر غصہ رہتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں اپنی چادر لے کر گھر سے نکلا اور حفصہ پر داخل ہوا اور اس سے کہا کہ اے میری پیاری بیٹی! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیتی ہے یہاں تک کہ وہ دن بھر غصہ میں رہتے ہیں؟ تو حفصہ نے کہا کہ اللہ کی قسم میں تو ان کو جواب دیتی ہوں پس میں نے اس سے کہا کہ تو جان لے میں تجھ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے ڈراتا ہوں اے میری بیٹی! تم اس بیوی کے دھوکے میں مت رہو جو اپنے حسن، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر ناز کرتی ہیں (یعنی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا)۔ پھر میں وہاں سے نکلا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اس قرابت کے سبب جو مجھے ان کے ساتھ تھی داخل ہوا اور میں نے ان سے بات کی۔ ام اسلمہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے کہا کہ اے ابن خطاب! تم پر تعجب ہے کہ تم ہر چیز میں دخل دیتے ہو یہاں تک کہ تم چاہتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ازواج کے معاملہ میں بھی دخل دو۔ مجھے ان کی اس بات سے بہت صدمہ پہنچا جس نے مجھے اس نصیحت سے باز رکھا جو میں کرنا چاہتا تھا۔ اور میں ان کے پاس سے چلا آیا۔ انصار میں سے میرا ایک دوست تھا کہ جب میں غائب ہوتا تو وہ مجھے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس اور احادیث کی) خبر دیتا اور جب وہ غائب ہوتا تو میں اس کو خبر دیتا تھا اور ہم ان دنوں غسان کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کا خوف رکھتے تھے اور ہم میں چرچا تھا کہ وہ ہماری طرف آنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ہمارے سینے اس کے خیال سے بھرے ہوئے تھے۔ اس دوران میرے دوست نے آ کر دروازہ بجایا اور کہا کہ کھولو کھولو! میں نے کہا کہ کیا غسانی آ گئے؟ اس نے کہا کہ نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ پریشانی کی ایک بات ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات سے جدا ہو گئے ہیں۔ پس میں نے کہا کہ حفصہ اور عائشہ کی ناک خاک آلود ہو۔ پھر میں نے اپنے کپڑے لئے اور نکلا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بالاخانے میں تھے کہ اس کے اوپر کھجور کی ایک جڑ سے چڑھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سیاہ فام غلام اس سیڑھی کے سرے پر تھا۔ پس میں نے کہا کہ یہ عمر ہے میرے لئے اجازت دی گئی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں نے یہ سب قصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا اور جب میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بات پر پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر تھے کہ ان کے اور چٹائی کے بیچ میں اور کوئی بچھونا نہ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ تھا جس میں کھجور کا چھلکا بھرا ہوا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروں کی طرف سلم کے کچھ پتے ڈھیر تھے (جس سے چمڑے کو رنگتے ہیں) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے ایک کچا چمڑا لٹکا ہوا تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو پر چٹائی کا اثر اور نشان دیکھا تو رونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! تجھے کس بات نے رلایا؟ میں نے کہ کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بیشک کسریٰ اور قیصر عیش میں ہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم راضی نہیں ہو کہ ان کیلئے دنیا ہو اور تمہارے لئے آخرت۔