مختصر صحيح مسلم
خریدوفروخت کے مسائل

نقد کی بیع میں بھی سود ثابت ہوتا ہے۔
حدیث نمبر: 954
ابونضرہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے (بیع) صرف کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس میں کوئی قباحت نہیں دیکھی (اگرچہ کمی بیشی ہو بشرطیکہ نقد و نقد ہو) پھر میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو میں نے ان سے (بیع) صرف کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ جو زیادہ ہو وہ سود ہے میں نے سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے کہنے کی وجہ سے اس کا انکار کیا تو انہوں نے کہا کہ میں تجھ سے نہیں بیان کروں گا مگر (صرف) وہ جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ ایک کھجور والا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صاع عمدہ کھجور لے کر آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھجور بھی اسی قسم کی تھی۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کھجور کہاں سے لایا؟ وہ بولا کہ میں دو صاع کھجور لے کر گیا اور ان کے بدلے ان کھجوروں کا ایک صاع خریدا ہے کیونکہ اس کا نرخ بازار میں ایسا ہے اور اس کا نرخ ایسا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیری خرابی ہو، تو نے سود دیا۔ جب تو ایسا کرنا چاہے تو اپنی کھجور کسی اور شے کے بدلے بیچ ڈال، پھر اس شے کے بدلے جو کھجور تو چاہے خرید لے۔ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پس جب کھجور کے بدلے کھجور دی جائے، اس میں سود ہو تو چاندی جب چاندی کے بدلے دی جائے (کم یا زیادہ) تو اس میں سود ضرور ہو گا (اگرچہ نقد و نقد ہو) ابونضرہ نے کہا کہ اس کے بعد پھر میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اس سے منع کیا (شاید ان کو سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث پہنچ گئی ہو) اور میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس نہیں گیا، لیکن مجھ سے ابوالصہباء نے بیان کیا کہ انہوں نے اس کے بارے میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مکہ میں پوچھا تو انہوں نے مکروہ کہا۔