مختصر صحيح مسلم
نذر ( ماننے ) کے مسائل

جو نذر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں ہو اور جس چیز کا وہ مالک نہیں، اس کو پورا نہ کیا جائے۔
حدیث نمبر: 1008
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ثقیف اور بنی عقیل ایک دوسرے کے حلیف تھے۔ ثقیف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے دو شخصوں کو قید کر لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے بنی عقیل میں سے ایک شخص کو گرفتار کر لیا اور عضباء (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی) کو بھی اس کے ساتھ پکڑا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور وہ بندھا ہوا تھا۔ اس نے کہا یا محمد! یا محمد! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اور پوچھا کہ کیا کہتا ہے؟ وہ بولا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کس قصور میں پکڑا اور حاجیوں کی اونٹنیوں پر سبقت لے جانے والی (یعنی عضباء کو) کس قصور میں پکڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بڑا قصور ہے اور میں نے تجھے تیرے دوست ثقیف کے قصور کے بدلے میں پکڑا ہے۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے تو اس نے پھر پکارا یا محمد، یا محمد! اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت رحمدل اور مہربان تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر اس کی طرف لوٹے اور پوچھا کہ کیا کہتا ہے؟ وہ بولا کہ میں مسلمان ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بات اگر تو اس وقت کہتا جب تو اپنے کام کا مختار تھا (یعنی گرفتار نہیں ہوا تھا) تو بالکل نجات پاتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے تو اس نے پھر پکارا یا محمد، یا محمد! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر آئے اور پوچھا کہ کیا کہتا ہے؟ وہ بولا کہ میں بھوکا ہوں مجھے کھانا کھلائیے اور میں پیاسا ہوں مجھے پانی پلائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ لے (یعنی کھانا پانی اس کو دیا)۔ پھر وہ ان دو شخصوں کے بدلے چھوڑا گیا جن کو ثقیف نے قید کر لیا تھا۔ راوی نے کہا کہ انصار کی ایک عورت قید ہو گئی اور عضباء بھی قید ہو گئی۔ پھر وہ عورت بندھی ہوئی تھی اور کافر اپنے گھروں کے سامنے اپنے جانوروں کو آرام دے رہے تھے کہ اس نے اپنے آپ کو بندھنوں سے آزاد کر لیا اور اونٹوں کے پاس آئی، جس اونٹ کے پاس جاتی وہ آواز کرتا تو وہ اس کو چھوڑ دیتی، یہاں تک کہ عضباء کے پاس آئی تو اس نے آواز نہیں کی اور وہ بڑی مسکین (شریف) اونٹنی تھی۔ عورت نے اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر اس کو ڈانٹا تو وہ چلی۔ کافروں کو خبر ہو گئی تو وہ عضباء کے پیچھے چلے (اپنی اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر) لیکن عضباء نے ان کو تھکا دیا (یعنی کوئی پکڑ نہ سکا کہ عضباء اتنی تیزرو تھی) اس عورت نے نذر مانی کہ اے اللہ! اگر عضباء مجھے بچا لے جائے تو میں اس کی قربانی کروں گی۔ جب وہ عورت مدینہ میں آئی اور لوگوں نے دیکھا تو کہا کہ یہ تو عضباء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی ہے۔ وہ عورت بولی کہ میں نے نذر کی ہے کہ اگر عضباء پر اللہ تعالیٰ مجھے نجات دے تو اس کو نحر کروں گی۔ یہ سن کر صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (تعجب سے) فرمایا کہ سبحان اللہ! اس عورت نے عضباء کو کیا برا بدلہ دیا (یعنی عضباء نے تو اس کی جان بچائی اور وہ عضباء کی جان لینا چاہتی ہے) اس نے نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ عضباء کی پیٹھ پر اس کو نجات دے تو وہ عضباء ہی کی قربانی کرے گی۔ جو نذر گناہ کے لئے کی جائے وہ پوری نہ کی جائے اور نہ وہ نذر پوری کی جائے جس کا انسان مالک نہیں۔