مختصر صحيح مسلم
خون کی حرمت قصاص و دیت کے مسائل

خون، اموال اور عزت کی حرمت کا بیان
حدیث نمبر: 1021
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک زمانہ گھوم کر اپنی اصلی حالت پر ویسا ہو گیا جیسا اس دن تھا جب اللہ تعالیٰ نے زمین آسمان بنائے تھے۔ سال بارہ مہینے کا ہے اور اس میں چار مہینے حرمت والے ہیں (یعنی ان میں لڑنا بھڑنا درست نہیں)۔ تین مہینے تو لگاتار ہیں ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب، (قبیلہ) مضر کا مہینہ جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان میں ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو رہے، یہاں تک کہ ہم سمجھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے کا نام کچھ اور رکھیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا یہ مہینہ ذوالحجہ کا نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ یہ ذوالحجہ کا مہینہ ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر چپ ہو رہے، یہاں تک کہ ہم سمجھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس شہر کا کچھ اور نام رکھیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا یہ (البلد) مکہ نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کون سا دن ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو رہے، یہاں تک کہ ہم یہ سمجھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کا نام کوئی اور رکھیں گے۔ (پھر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا یہ یوم النحر نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! بیشک یہ یوم النحر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری جانیں اور تمہارے مال (راوی کہتا ہے میرا خیال ہے کہ بھی کہا) اور تمہاری آبروئیں (عزتیں) تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے یہ دن حرام ہے اس شہر میں، اس مہینے میں۔ (جس کی حرمت میں کسی کو شک نہیں ایسے ہی مسلمان کی جان، عزت اور دولت بھی حرام ہے اور اس کا بلاوجہ شرعی لے لینا درست نہیں ہے) اور عنقریب تم اپنے پروردگار سے ملو گے، تو وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔ پھر تم میرے بعد کافر یا گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو (یعنی آپس میں لڑنے لگو اور ایک دوسرے کو مارو۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری نصیحت اور بہت بڑی اور عمدہ نصیحت تھی۔ افسوس کہ مسلمانوں نے تھوڑے دنوں تک اس پر عمل کیا آخر آفت میں گرفتار ہوئے اور عقبیٰ جدا تباہ کیا)۔ جو (اس وقت، اس مجمع میں) حاضر ہے وہ یہ حکم غائب (جو حاضر نہیں ہے) کو پہنچا دے۔ کیونکہ بعض وہ (غائب) شخص جس کو (حاضر شخص) یہ بات پہنچائے گا (اب) سننے والے سے زیادہ یاد رکھنے والا ہو گا۔ پھر فرمایا کہ دیکھو میں نے اللہ کا حکم پہنچا دیا۔