صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
22. بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الْفِرَاشِ:
باب: بچھونے پر نماز پڑھنا (جائز ہے)۔
حدیث نمبر: 384
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ، عَنْ عِرَاكٍ، عَنْ عُرْوَةَ،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي وَعَائِشَةُ مُعْتَرِضَةٌ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ عَلَى الْفِرَاشِ الَّذِي يَنَامَانِ عَلَيْهِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا ہم سے لیث بن سعد نے حدیث بیان کی یزید سے، انہوں نے عراک سے، انہوں نے عروہ بن زبیر سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بچھونے پر نماز پڑھتے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور عائشہ رضی اللہ عنہا سوتے اور عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور قبلہ کے درمیان اس بستر پر لیٹی رہتیں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 384  
384. حضرت عروہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نماز پڑھتے تھے اور حضرت عائشہ ؓ آپ کے اور قبلے کے درمیان اس بستر پر لیٹی رہتیں جس پر یہ دونوں سوتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:384]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں مزید وضاحت آگئی کہ جس بستر پر آپ سویا کرتے تھے، اسی پر بعض دفعہ نماز بھی پڑھ لیتے۔
پس معلوم ہوا کہ سجدہ کے لیے زمین کی مٹی کا بطور شرط ہونا ضروری نہیں ہے۔
سجدہ بہرحال زمین ہی پر ہوتا ہے۔
اس لیے کہ وہ بستر یاچٹائی یا مصلّی پر بچھاہوا ہے
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 384   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:384  
384. حضرت عروہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نماز پڑھتے تھے اور حضرت عائشہ ؓ آپ کے اور قبلے کے درمیان اس بستر پر لیٹی رہتیں جس پر یہ دونوں سوتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:384]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے اس باب میں ثابت کیا ہے کہ جس طرح نماز زمین یا اس کی جنس پر درست ہے غیر جنس ارض پر بھی درست ہے، خواہ وہ بستر ہو یا کوئی فرش قطع نظر اس سے کہ وہ بہترین ہو یا گھٹیا، چونکہ بعض اسلاف سے ان پر نماز پڑھنے کا انکار ثابت ہے، وہ عمدہ قالین یا وہ بستر جس میں روئی زیادہ ہو ان پر نماز ادا کرنا مکروہ قراردیتے تھے۔
اس لیے امام بخاری ؒ نے یہ روایت لا کر ان کے موقف کی تردید كی ہے۔
نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
اگرچہ بعض حضرات تاویل کرتے ہیں کہ پاؤں کو دباتے وقت اس پر کپڑا ہوتا تھا، لیکن یہ تاویل بعید ہے۔
پہلی حدیث میں بستر پر نماز پڑھنے کی صراحت نہ تھی۔
اس لیے دوسری روایت پیش کی کہ آپ بستر پر نماز پڑھتے تھے۔
اگرچہ اُم المومنین عائشہ ؓ کے آگے لیٹنے میں اشارہ موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ سونے کے بستر پر نماز پڑھ رہے تھے، تاہم تیسری روایت میں اس کی بھی صراحت موجود ہے۔
مقصد یہ ہے کہ پیشانی زمین پر رکھنا ضروری نہیں، البتہ پاؤں کا جمانا اور ہاتھوں اور پیشانی کا کسی پاک چیز پر ٹکانا ضروری ہے، ہاں ایسے بستر یا قالین جو زیب و زینت کی وجہ سے دل کو اپنی طرف متوجہ کردیں ان پر نماز ادا کرنا پسندیدہ نہیں، تاہم اگر ان پر نماز پڑھ لی جائے تو فرض ادا ہو جائے گا۔
حضرت عائشہ ؓ اپنے اس معمول کے متعلق ایک عذر پیش کرتی ہیں کہ اس وقت مکانوں میں چراغ نہ تھے، کیونکہ چراغ ہونے کی صورت میں مجھے پتہ چل جاتا کہ آپ کس وقت سجدے میں جا رہے ہیں، اس وقت میں خود ہی پاؤں سمیٹ لیتی، لیکن اندھیرے کے سبب کچھ نظر ہی نہ آتا تھا، اس لیے آپ کو پاؤں دبانے کی ضرورت پیش آتی۔

بعض احادیث کے مطابق حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے بستروں میں نماز نہیں پڑھا کرتے تھے۔
(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 368)
امام بخاری ؒ نے یہ روایت پیش کر کے ضعف کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
چنانچہ امام ابو داؤد ؒ نے اس روایت کے بعد اس کے ناقابل حجت ہونے کی علت بھی بیان کی ہے۔
اگر ایسی روایات صحیح ہیں تو امام بخاری ؒ کی پیش کردہ روایات کے مقابلے میں وہ شاذ اور مردود قرارپائیں گی۔
(فتح الباري: 637/1)

ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سوئے ہوئے آدمی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا مکروہ نہیں بلکہ جائز ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 384