صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي -- کتاب: غزوات کے بیان میں
17. بَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ:
باب: غزوہ احد کا بیان۔
حدیث نمبر: 4043
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى , عَنْ إِسْرَائِيلَ , عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ , عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ: لَقِينَا الْمُشْرِكِينَ يَوْمَئِذٍ وَأَجْلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشًا مِنَ الرُّمَاةِ وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ وَقَالَ:" لَا تَبْرَحُوا إِنْ رَأَيْتُمُونَا ظَهَرْنَا عَلَيْهِمْ فَلَا تَبْرَحُوا , وَإِنْ رَأَيْتُمُوهُمْ ظَهَرُوا عَلَيْنَا فَلَا تُعِينُونَا" , فَلَمَّا لَقِينَا هَرَبُوا حَتَّى رَأَيْتُ النِّسَاءَ يَشْتَدِدْنَ فِي الْجَبَلِ رَفَعْنَ عَنْ سُوقِهِنَّ قَدْ بَدَتْ خَلَاخِلُهُنَّ فَأَخَذُوا يَقُولُونَ: الْغَنِيمَةَ , الْغَنِيمَةَ , فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا تَبْرَحُوا فَأَبَوْا , فَلَمَّا أَبَوْا صُرِفَ وُجُوهُهُمْ فَأُصِيبَ سَبْعُونَ قَتِيلًا , وَأَشْرَفَ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ: أَفِي الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ؟ فَقَالَ لَا تُجِيبُوهُ فَقَالَ: أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ؟ قَالَ: لَا تُجِيبُوهُ , فَقَالَ: أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ الْخَطَّابِ؟ فَقَالَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ قُتِلُوا فَلَوْ كَانُوا أَحْيَاءً لَأَجَابُوا , فَلَمْ يَمْلِكْ عُمَرُ نَفْسَهُ , فَقَالَ: كَذَبْتَ يَا عَدُوَّ اللَّهِ أَبْقَى اللَّهُ عَلَيْكَ مَا يُخْزِيكَ , قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: اعْلُ هُبَلُ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَجِيبُوهُ" , قَالُوا مَا نَقُولُ؟ قَالَ:" قُولُوا اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ" , قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: لَنَا الْعُزَّى وَلَا عُزَّى لَكُمْ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَجِيبُوهُ" , قَالُوا: مَا نَقُولُ؟ قَالَ:" قُولُوا اللَّهُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلَى لَكُمْ" , قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: يَوْمٌ بِيَوْمِ بَدْرٍ وَالْحَرْبُ سِجَالٌ وَتَجِدُونَ مُثْلَةً لَمْ آمُرْ بِهَا وَلَمْ تَسُؤْنِي.
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابن اسحاق (عمرو بن عبیداللہ سبیعی) نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگ احد کے موقع پر جب مشرکین سے مقابلہ کے لیے ہم پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر اندازوں کا ایک دستہ عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہما کی ماتحتی میں (پہاڑی پر) مقرر فرمایا تھا اور انہیں یہ حکم دیا تھا کہ تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا، اس وقت بھی جب تم لوگ دیکھ لو کہ ہم ان پر غالب آ گئے ہیں پھر بھی یہاں سے نہ ہٹنا اور اس وقت بھی جب دیکھ لو کہ وہ ہم پر غالب آ گئے، تم لوگ ہماری مدد کے لیے نہ آنا۔ پھر جب ہماری مڈبھیڑ کفار سے ہوئی تو ان میں بھگدڑ مچ گئی۔ میں نے دیکھا کہ ان کی عورتیں پہاڑیوں پر بڑی تیزی کے ساتھ بھاگی جا رہی تھیں، پنڈلیوں سے اوپر کپڑے اٹھائے ہوئے، جس سے ان کے پازیب دکھائی دے رہے تھے۔ عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہما کے (تیرانداز) ساتھی کہنے لگے کہ غنیمت غنیمت۔ اس پر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کی تھی کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹنا (اس لیے تم لوگ مال غنیمت لوٹنے نہ جاؤ) لیکن ان کے ساتھیوں نے ان کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ ان کی اس حکم عدولی کے نتیجے میں مسلمانوں کو ہار ہوئی اور ستر مسلمان شہید ہو گئے۔ اس کے بعد ابوسفیان نے پہاڑی پر سے آواز دی، کیا تمہارے ساتھ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) موجود ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی جواب نہ دے، پھر انہوں نے پوچھا، کیا تمہارے ساتھ ابن ابی قحافہ موجود ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب کی بھی ممانعت فرما دی۔ انہوں نے پوچھا، کیا تمہارے ساتھ ابن خطاب موجود ہیں؟ اس کے بعد وہ کہنے لگے کہ یہ سب قتل کر دیئے گئے۔ اگر زندہ ہوتے تو جواب دیتے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ بے قابو ہو گئے اور فرمایا: اللہ کے دشمن تو جھوٹا ہے۔ اللہ نے ابھی انہیں تمہیں ذلیل کرنے لیے باقی رکھا ہے۔ ابوسفیان نے کہا، ہبل (ایک بت) بلند رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا جواب دو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ ہم کیا جواب دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہو، اللہ سب سے بلند اور بزرگ و برتر ہے۔ ابوسفیان نے کہا، ہمارے پاس عزیٰ (بت) ہے اور تمہارے پاس کوئی عزیٰ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا جواب دو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا، کیا جواب دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کہو، اللہ ہمارا حامی اور مددگار ہے اور تمہارا کوئی حامی نہیں۔ ابوسفیان نے کہا، آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے اور لڑائی کی مثال ڈول کی ہوتی ہے۔ (کبھی ہمارے ہاتھ میں اور کبھی تمہارے ہاتھ میں) تم اپنے مقتولین میں کچھ لاشوں کا مثلہ کیا ہوا پاؤ گے، میں نے اس کا حکم نہیں دیا تھا لیکن مجھے برا نہیں معلوم ہوا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2662  
´کمین (گھات) میں بیٹھنے والوں کا بیان۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد میں عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو تیر اندازوں کا امیر بنایا ان کی تعداد پچاس تھی اور فرمایا: اگر تم دیکھو کہ ہم کو پرندے اچک رہے ہیں پھر بھی اپنی اس جگہ سے نہ ہٹنا یہاں تک کہ میں تمہیں بلاؤں اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے کافروں کو شکست دے دی ہے، انہیں روند ڈالا ہے، پھر بھی اس جگہ سے نہ ہٹنا، یہاں تک کہ میں تمہیں بلاؤں، پھر اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست دی اور اللہ کی قسم میں نے مشرکین کی عورتوں کو دیکھا کہ بھاگ کر پہاڑوں پر چڑھنے لگیں، عبداللہ بن جبیر کے ساتھی کہنے لگے: لوگ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2662]
فوائد ومسائل:

دشمن پر حملہ کرنے یا اپنے دفاع کےلئے مجاہدین کوکمین گاہ میں چھپنا یا چھپانا جائز اور نظم جہاد کا ایک اہم حصہ ہوتاہے۔


رسول اللہ ﷺ کے حکم کی پرواہ نہ کرنے اور مال کی حرص کا نتیجہ شکست کی صورت میں سامنے آیا۔
جو اگرچہ عارضی تھی۔
اس لئے واجب ہے کہ انسان فرامین رسول ﷺ کو ہرحال میں اولیت اور اولیت دے تاکہ دنیا اور آخرت کی ہزیمت سے محفوظ رہے۔


شرعی امیر کی اطاعت بھی واجب ہے۔
اور سپہ سالار کی منصوبہ بندی کے احکام بلا چون وچرا ماننے چاہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2662   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4043  
4043. حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جنگ اُحد کے موقع پر جب ہمارا مشرکین سے آمنا سامنا ہوا تو نبی ﷺ نے تیر ندازوں کا ایک دستہ عبداللہ بن جبیر ؓ کی سرکردگی میں تعینات فرمایا اور انہیں یہ حکم دیا: تم نے اپنی جگہ پر برقرار رہنا ہے۔ اگر تم دیکھو کہ ہم نے مشرکین پر غلبہ حاصل کر لیا ہے تو بھی اس جگہ کو نہیں چھوڑنا اور اگر تم دیکھو کہ وہ ہم پر غالب آ گئے ہیں تو بھی ہماری مدد کے لیے نہیں آنا۔ جب ہم نے ان سے مقابلہ کیا تو وہ بھاگ نکلے۔ میں نے دیکھا کہ ان کی عورتیں پہاڑیوں پر بڑی تیزی کے ساتھ دوڑتی جا رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑے اٹھائے ہوئے تھے اور ان کے پازیب دکھائی دے رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر درے پر تعینات تیر اندازوں نے کہنا شروع کر دیا کہ دوڑو اور مال غنیمت حاصل کرو۔ حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ نے ان سے کہا: مجھے نبی ﷺ نے تاکید کی تھی کہ تم نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4043]
حدیث حاشیہ:
بعد میں حضرت ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب مسلمان ہوگئے تھے اوراپنی اس زندگی پرنادم تھے مگر اسلام پہلے کےگناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4043   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4043  
4043. حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جنگ اُحد کے موقع پر جب ہمارا مشرکین سے آمنا سامنا ہوا تو نبی ﷺ نے تیر ندازوں کا ایک دستہ عبداللہ بن جبیر ؓ کی سرکردگی میں تعینات فرمایا اور انہیں یہ حکم دیا: تم نے اپنی جگہ پر برقرار رہنا ہے۔ اگر تم دیکھو کہ ہم نے مشرکین پر غلبہ حاصل کر لیا ہے تو بھی اس جگہ کو نہیں چھوڑنا اور اگر تم دیکھو کہ وہ ہم پر غالب آ گئے ہیں تو بھی ہماری مدد کے لیے نہیں آنا۔ جب ہم نے ان سے مقابلہ کیا تو وہ بھاگ نکلے۔ میں نے دیکھا کہ ان کی عورتیں پہاڑیوں پر بڑی تیزی کے ساتھ دوڑتی جا رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑے اٹھائے ہوئے تھے اور ان کے پازیب دکھائی دے رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر درے پر تعینات تیر اندازوں نے کہنا شروع کر دیا کہ دوڑو اور مال غنیمت حاصل کرو۔ حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ نے ان سے کہا: مجھے نبی ﷺ نے تاکید کی تھی کہ تم نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4043]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ نے ابو سفیان کی باتوں کا جواب دینے سے منع فرمایا تاکہ اس کے دل کا راز معلوم ہو جائے کہ وہ کس مقصد کے لیے پوچھ رہا ہے، نیز خاموشی اختیار کرنے میں دشمن کو بظاہر خوشی ہوگی لیکن جب آپ ﷺ کا اور حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کا زندہ ہونا معلوم ہوگا تو زیادہ رنج میں مبتلا ہوں گے۔
یہ بھی ایک قسم کا جہاد ہے۔

حضرت عمر ؓ نے قرینے سے معلوم کر لیا تھا رسول اللہ ﷺ کا مقصد یہ ہے کہ ابو سفیان جب تک بولتا رہے اس کا جواب نہ دیا جائے لیکن اس کے خاموش ہو جانے کے بعد ممانعت نہیں اس لیے حضرت عمر ؓ کا جواب دینا نافرمانی اور حکم عددلی نہیں۔
اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ جواب دینے پر عتاب فرماتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔

اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ کفر کی آنکھ میں رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ تینوں بزرگ کاٹنے کی طرح کھٹکتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ ابو سفیان نے صرف ان تینوں حضرات کے متعلق سوال کیا۔

آج بھی کچھ لوگ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ سے پرخاش رکھتے ہیں اور ان پر سب وشتم روا سمجھتے ہیں۔
جبکہ اسلام میں ان دونوں بزرگوں کا مقام بہت اونچا ہے اور اس مقام اور اہمیت کو روز اول کے کفر نے بھی محسوس کیا تھا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے بھی ان حضرات کی قدر و منزلت کو خوب اجاگر کیا ہے۔
(فتح الباری: 440/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4043