مختصر صحيح مسلم
دیگر صحابہ کی فضیلت کا بیان

سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1704
سیدنا عبداللہ بن صامت کہتے ہیں کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں، میرا بھائی انیس اور ہماری ماں تینوں اپنی قوم غفار میں سے نکلے جو حرام مہینے کو بھی حلال سمجھتے تھے۔ پس ہم اپنے ایک ماموں کے پاس اترے۔ اس نے ہماری خاطر کی اور ہمارے ساتھ نیکی کی تو اس کی قوم نے ہم سے حسد کیا اور (ہمارے ماموں سے) کہنے لگے کہ جب تو اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے تو انیس تیری بی بی کے ساتھ زنا کرتا ہے۔ وہ ہمارے پاس آیا اور اس نے یہ بات (حماقت سے) مشہور کر دی۔ میں نے کہا کہ تو نے ہمارے ساتھ جو احسان کیا تھا وہ بھی خراب ہو گیا ہے، اب ہم تیرے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ آخر ہم اپنے اونٹوں کے پاس گئے اور اپنا اسباب لادا اور ہمارے ماموں نے اپنا کپڑا اوڑھ کر رونا شروع کر دیا۔ ہم چلے، یہاں تک کہ مکہ کے سامنے اترے۔ انیس نے ہمارے اونٹوں کے ساتھ اتنے ہی اور کی شرط لگائی۔ پھر دونوں کاہن کے پاس گئے تو کاہن نے انیس کو کہا کہ یہ بہتر ہے۔ پس انیس ہمارے پاس سارے اونٹ اور اتنے ہی اور اونٹ لایا۔ ابوذر نے کہا کہ اے میرے بھائی کے بیٹے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات سے پہلے تین برس پہلے نماز پڑھی ہے۔ میں نے کہا کہ کس کے لئے پڑھتے تھے؟ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے۔ میں نے کہا کہ کدھر منہ کرتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ ادھر منہ کرتا تھا جدھر اللہ تعالیٰ میرا منہ کر دیتا تھا۔ میں رات کے آخر حصہ میں عشاء کی نماز پڑھتا اور سورج طلوع ہونے تک کمبل کی طرح پڑ رہتا تھا۔ انیس نے کہا کہ مجھے مکہ میں کام ہے، تم یہاں رہو میں جاتا ہوں۔ وہ گیا اور اس نے آنے میں دیر کی۔ پھر آیا تو میں نے کہا کہ تو نے کیا کیا؟ وہ بولا کہ میں مکہ میں ایک شخص سے ملا جو تیرے دین پر ہے اور وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھیجا ہے۔ میں نے کہا کہ لوگ اسے کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا کہ لوگ اس کو شاعر، کاہن اور جادوگر کہتے ہیں۔ اور انیس خود بھی شاعر تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے کاہنوں کی بات سنی ہے لیکن جو کلام یہ شخص پڑھتا ہے وہ کاہنوں کا کلام نہیں ہے اور میں نے اس کا کلام شعر کے تمام بحروں پر رکھا تو وہ کسی کی زبان پر میرے بعد شعر کی طرح نہ جڑے گا۔ اللہ کی قسم وہ سچا ہے اور لوگ جھوٹے ہیں۔ میں نے کہا کہ تم یہاں رہو میں اس شخص کو جا کر دیکھتا ہوں۔ پھر میں مکہ میں آیا تو میں نے ایک ناتواں شخص کو مکہ والوں میں سے چھانٹا (اس لئے کہ طاقتور شخص شاید مجھے کوئی تکلیف پہنچائے)، اور اس سے پوچھا کہ وہ شخص کہاں ہے جس کو تم صابی (بےدین) کہتے ہو؟ اس نے میری طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ صابی ہے (جب تو صابی کا پوچھتا ہے) یہ سن کر تمام وادی والوں نے ڈھیلے اور ہڈیاں لے کر مجھ پر حملہ کر دیا، یہاں تک کہ میں بیہوش ہو کر گر پڑا۔ جب میں ہوش میں آ کر اٹھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گویا میں لال بت ہوں (یعنی سر سے پیر تک خون سے سرخ ہوں)۔ پھر میں زمزم کے پاس آیا اور میں نے سب خون دھویا اور زمزم کا پانی پیا۔ پس اے میرے بھتیجے! میں وہاں تیس راتیں یا تیس دن رہا اور میرے پاس سوائے زمزم کے پانی کے کوئی کھانا نہ تھا (جب بھوک لگتی تو میں اسی کو پیتا)۔ پھر میں موٹا ہو گیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کی بٹیں (موٹاپے سے) جھک گئیں اور میں نے اپنے کلیجہ میں بھوک کی ناتوانی نہیں پائی۔ ایک بار مکہ والے چاندنی رات میں سو گئے کہ اس وقت بیت اللہ کا طواف کوئی نہ کرتا تھا، صرف دو عورتیں اساف اور نائلہ کو پکار رہی تھیں (اساف اور نائلہ مکہ میں دو بت تھے اساف مرد تھا اور نائلہ عورت تھی اور کفار کا یہ اعتقاد تھا کہ ان دونوں نے وہاں زنا کیا تھا، اس وجہ سے مسخ ہو کر بت ہو گئے تھے)، وہ طواف کرتی کرتی میرے سامنے آئیں۔ میں نے کہا کہ ایک کا نکاح دوسرے سے کر دو (یعنی اساف کا نائلہ سے)۔ یہ سن کر بھی وہ اپنی بات سے باز نہ آئیں۔ پھر میں نے صاف کہہ دیا کہ ان کے فلاں میں لکڑی (یعنی یہ فخش اساف اور نائلہ کی پرستش کی وجہ سے) اور میں نے کنایہ نہ کیا (یعنی کنایہ اشارہ میں میں نے گالی نہیں دی بلکہ ان مردود عورتوں کو غصہ دلانے کے لئے اساف اور نائلہ کو کھلم کھلا گالی دی، جو اللہ تعالیٰ کے گھر میں اللہ کو چھوڑ کر اساف اور نائلہ کو پکارتی تھیں) یہ سن کر وہ دونوں عورتیں چلاتی اور کہتی ہوئی چلیں کہ کاش اس وقت ہمارے لوگوں میں سے کوئی ہوتا (جو اس شخص کو بے ادبی کی سزا دیتا)۔ راہ میں ان عورتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ملے اور وہ پہاڑ سے اتر رہے تھے۔ انہوں نے عورتوں سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ وہ بولیں کہ ایک صابی آیا ہے جو کعبہ کے پردوں میں چھپا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صابی نے کیا کہا؟ وہ بولیں کہ ایسی بات بولا جس سے منہ بھر جاتا ہے (یعنی اس کو زبان سے نہیں نکال سکتیں)۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، یہاں تک حجراسود کو بوسہ دیا اور اپنے ساتھی کے ساتھ طواف کیا اور نماز پڑھی۔ جب نماز پڑھ چکے تو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اول میں نے ہی سلام کی سنت ادا کی اور کہا کہ السلام علیکم یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وعلیک ورحمۃ اللہ۔ پھر پوچھا کہ تو کون ہے؟ میں نے کہا کہ غفار کا ایک شخص ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ جھکایا اور اپنی انگلیاں پیشانی پر رکھیں (جیسے کوئی ذکر کرتا ہے) میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہنا برا معلوم ہوا کہ میں (قبیلہ) غفار میں سے ہوں۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑنے کو لپکا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ) نے جو مجھ سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال جانتے تھے مجھے روکا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور فرمایا کہ تو یہاں کب آیا؟ میں نے عرض کیا میں یہاں تیس رات یا دن سے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجھے کھانا کون کھلاتا ہے؟ میں نے کہا کہ کھانا وغیرہ کچھ نہیں سوائے زمزم کے پانی کے۔ پھر میں موٹا ہو گیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کے بٹ مڑ گئے اور میں اپنے کلیجہ میں بھوک کی ناتوانی نہیں پاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زمزم کا پانی برکت والا ہے اور وہ کھانا بھی ہے اور کھانے کی طرح پیٹ بھر دیتا ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! آج کی رات اس کو کھلانے کی اجازت مجھے دیجئیے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی میں بھی ان دونوں کے ساتھ چلا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک دروازہ کھولا اور اس میں سے طائف کی سوکھی ہوئی کشمش نکالیں، یہ پہلا کھانا تھا جو میں نے مکہ میں کھایا۔ پھر میں رہا جب تک کہ رہا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ایک کھجور والی زمین دکھلائی گئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ زمین یثرب کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ (یثرب مدینہ کا نام تھا)، پس تو میری طرف سے اپنی قوم کو دین کی دعوت دے، شاید اللہ تعالیٰ ان کو تیری وجہ سے نفع دے اور تجھے ثواب دے۔ میں انیس کے پاس آیا تو اس نے پوچھا کہ تو نے کیا کیا؟ میں نے کہا کہ میں اسلام لایا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی۔ وہ بولا کہ تمہارے دین سے مجھے بھی نفرت نہیں ہے میں بھی اسلام لایا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی۔ پھر ہم دونوں اپنی ماں کے پاس آئے وہ بولی کہ مجھے بھی تم دونوں کے دین سے نفرت نہیں ہے میں بھی اسلام لائی اور میں نے تصدیق کی۔ پھر ہم نے اونٹوں پر اسباب لادا، یہاں تک کہ ہم اپنی قوم غفار میں پہنچے۔ آدھی قوم تو مسلمان ہو گئی اور ان کا امام ایماء بن رحضہ غفاری تھا وہ ان کا سردار بھی تھا۔ اور آدھی قوم نے یہ کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائیں گے تو ہم مسلمان ہوں گے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے اور آدھی قوم جو باقی تھی وہ بھی مسلمان ہو گئی اور (قبیلہ) اسلم کے لوگ آئے اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم بھی اپنے غفاری بھائیوں کی طرح مسلمان ہوتے ہیں تو وہ بھی مسلمان ہو گئے تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غفار کو اللہ نے بخش دیا اور اسلم کو اللہ تعالیٰ نے (قتل اور قید سے) بچا دیا۔